Circle Image

شہریار حیدر

@SheharyarHaider

شاعر، فوٹوگرافر، ڈیجیٹل پینٹ آرٹسٹ، انجینئر

عشق دشوار ہو گیا ہے کیا؟
دشت درکار ہو گیا ہے کیا؟
بات کرتا ہے بات کرنے پر
ہم سے بیزار ہو گیا ہے کیا؟
کیوں سنورنے کا آسرا لیں ہم
حسن معیار ہو گیا ہے کیا؟

129
تیرے بالوں پہ اتری بہاروں کی خیر
ان مہک سے لدے مرغزاروں کی خیر
جن کو تیرے سوا کچھ پتہ ہی نہیں
ایسے ان پڑھ، نکموں، بے چاروں کی خیر
دوستی، دلبری، چاندنی، شاعری
آتی جاتی رہیں اور چاروں کی خیر

102
کانٹوں کو تلف آگ بجھانے پہ لگے ہیں
یہ گھاؤ ترے شہر میں آنے پہ لگے ہیں
کچھ تیر لگے ہیں ہمیں احباب کے ہاتھوں
کچھ تیر ترے خواب سجانے پہ لگے ہیں
ہیں اور جو اطراف مرے رقص کناں ہیں
مرہم جنہیں رکھنا ہے ستانے پہ لگے ہیں

89
ہمارا شہ گداگر ہے، یہ درباری سمجھتے ہیں
مگر وہ مانگ کر کھانے کو فنکاری سمجھتے ہیں
بتوں کو کیا خبر ہو گی وقارِ آئینہ کیا ہے؟
جو پتھر ہیں وہ بس پتھر کو معیاری سمجھتے ہیں
ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم پر وہ مسلط ہوں
جو چادر تان کر سونے کو ہشیاری سمجھتے ہیں

89
بدن میں پھول کھلے اور بہار شرمائی
کبھی کبھی ہی تو لیتا ہے عشق انگڑائی
عجیب بات ہے دونوں تلاشِ ابر میں ہیں
میں دشت کا ہوں علاقہ، زمیں وہ دریائی
ذرا جو وقت نکالو تو دونوں سنوریں گے
تمہاری زلفِ پریشاں ، ہماری تنہائی

96
ہم مانتے ہیں شوخ ہے نازک ہے گل بدن
اتنا بھی کیا کہ اٹھ نہ سکے اپنا ہی پھبن
اتنی خزاں اٹھائی بدن چور ہو گئے
اترے گی اب بہار سے اشجار کی تھکن
ہم نے پرندے بھیج کے معلوم کر لیا
اُس شاخ نے کئے ہوئے ہیں کس قدر جتن

0
100
پورا کوئی بھی ہم سے ہَدَف ہو نہیں رہا
دل سے ترا خیال تَلَف ہو نہیں رہا
صد حیف! آسمان میں لاکھوں ستارے ہیں
لیکن کوئی بھی میری طَرَف ہو نہیں رہا
میں چاہتا ہوں ساتھ اِسے منسلک کروں
اور دل ترے خطوط سے لَف ہو نہیں رہا

86
کب تلک یوں گھر میں بیٹھے "ہائے ہائے دل" کہیں
آج مل کر اس پری سے مدعائے دل کہیں
دیکھ کر جیسے تجھے یہ دل مچلتا ہے اِسے
دل کا مر جانا کہیں یا پھر ادائے دل کہیں
جس تواتر سے مسافر آتے جاتے ہیں یہاں
رہنے والے بھی اسے اب اک سرائے دل کہیں

117
مجھے عمر بھر کی نوید دے کہ ترے اثر میں گزار لوں
مری زندگی ہے غزل نہیں جسے دو گھڑی میں سنوار لوں
اسے چاندنی پہ غرور ہے، وہ مری پہنچ سے بھی دور ہے
مرا آسماں پہ جو بس چلے تو وہ چاند گھر میں اتار لوں
مجھے ہجر سونپ تو ساتھ میں اسے پالنے کا ہنر بھی دے
نہیں ہجر رکھنے کا تجربہ کہ میں چار دن میں سدھار لوں

61
ہر اُس پہ مر رہا ہے جسے جانتا نہ ہو
جیسے ہمارے دل کا کوئی آشنا نہ ہو
کچھ فائدہ نہیں ہے کبوتر کو پال کر
اس کو کسی کی چھت پہ اگر بھیجنا نہ ہو
حلیے پہ ہونے لگتی ہیں باتیں غلط غلط
اتنا بھی خوش لباس مرے دوستا نہ ہو

101
یہ کب کہا ہے آئیں تو مہمان داری ہو
بس اتنی آرزو ہے زیارت تمہاری ہو
ممکن ہے اک ستارے ہوں چرخِ سخن کے ہم
اگلے برس یہاں پہ جب انجم شماری ہو
اس واسطے نہ کی گئی تجھ سے وفا پہ بات
ہم چاہتے نہیں تھے تجھے شرمساری ہو

85
اس کے سرخ ہونٹوں کا
ادھ کھلے گلابوں سے
رابطہ سا لگتا ہے
اس کی شوخ زلفوں کا
ابر سے گھٹاؤں سے
واسطہ سا لگتا ہے

163
عالم ہے اُن کے چہرے پہ یوں اضطراب کا
جیسے ہمارے ہاتھ میں ہو دل جناب کا
پھیلا دیا چمن میں تعصب ببول نے
ورنہ میں تم کو بھیجتا تحفہ گلاب کا
ممکن ہے، یہ زمین اگر ہم سفر نہ ہو
چہرہ اتر نہ جائے کہیں آفتاب کا

92
سب کو بے قراری ہے اور ہے ترے گھر کی
ہم نے بات سن لی ہے موسموں کی امبر کی
اس طرح طوالت کی ہم مثال دیتے ہیں
جیسے تیرا آنا ہو اور شب دسمبر کی
اس کو مل رہے ہیں سو اتنا شور تو ہو گا
جان تو نکلنی ہے ایک ایک نمبر کی

99
ہزاروں پھول کھلے دل میں یہ امنگ لے کر
کسی حسین کی زلفوں میں سج کے چمکیں گے
کسی کے قدموں میں بکھریں گے چین پائیں گے
کسی کے ہاتھ میں مہکیں گے اک جنم دن پر
کسی کے حجرے میں اچھے سے جگمگائیں گے
.

196
پیدا خیالِ یار کا ساماں کئے رکھا
دل نے ہمارے درد کا درماں کئے رکھا
چہرے پہ ذرہ بھر بھی تھکاوٹ نہ آنے دی
ہم نے تمہارے عشق کو آساں کئے رکھا
بوسے کے اردگرد لکیروں کو کھینچ کر
ماتھے پہ اک خراج کو چسپاں کئے رکھا

99
آنگن سے اور در سے تعارف نہ ہو سکا
اپنا ہی اپنے گھر سے تعارف نہ ہو سکا
اس کا مری ہنسی سے تعارف ہوا مگر
اشکوں سے چشمِ تر سے تعارف نہ ہو سکا
تیری بلائیں لیتا ہے لاہور اور یہاں
ہم ہیں کہ اس نگر سے تعارف نہ ہو سکا

0
144
پوشاک ہو کوئی یا کوئی اوڑھنی رہے
کچھ تو ہمارے گھر میں تری روشنی رہے
منسوب ہو رہی ہے کسی منفرد سے وہ
اور یہ بھی چاہتی ہے مجھے چاہتی رہے
ایسے نہیں ہیں تاک میں عشوہ زنوں کے دل
جیسے ہماری تاک میں یہ بے دلی رہے

88
چاندنی شب میں مسکراتا ہے
چاند کا ذہن کیوں بناتا ہے
یہ تمہارا خلوص ہے ورنہ
اس خرابے میں کون آتا ہے
ایک پیاسا ہے اُس پہ مرتا ہے
ایک دریا ہے سوکھ جاتا ہے

0
138
رستہ ترے فراق کا دیکھا تو ڈر گئے
مہکا ترا وصال تو حیرت سے مر گئے
سن کر تمہاری آنکھ کے غمزوں کی داستاں
غزلیں جوان ہو گئیں مضموں نکھر گئے
افسوس اپنے آپ پہ برسوں کے بعد ہم
یکجا کئے گئے تھے مگر پھر بکھر گئے

0
121
برسات کے نہ راگ کے آغاز سے ہوا
دل کو سکون آپ کی آواز سے ہوا
خود کو فدا کریں" یہ کہا نازنین نے"
حیرت ہے یار میں بھی بڑے ناز سے ہوا
اتنا نہیں دیا ہمیں نقصان غیر نے
جتنا ہمیں ہمارے ہی ہمراز سے ہوا

0
111
گزری ہے ایک عمر مری دل فگاری میں
تیکھے کماندار ہیں اس راہداری میں
مشکل ہے ایک آدھ ستارے کا فرق ہو
اتنے غلط نہیں ہیں ہم انجم شماری میں
ٹھہرائے پھر رہو ہو میاں گھر میں ایک دشت
اور چاہتے ہو پھول ہوں کھڑکی تمہاری میں

0
126
رہتی تھی یاد وصل کی، تجھ خوش خصال کے
آیا ہوں تیرے ہجر کو آنکھیں نکال کے
یہ دل ہے چونچلے تو کرے گا سویر شام
اب دیکھنا پڑیں گے ہمیں نونہال کے
وہ سوچتا وہی ہے جسے سوچتا ہوں میں
پر زاویے الگ ہیں مرے ہم خیال کے

105
آپ مانگیں تو دل فراہم ہو
یہ ضروری نہیں کہ موسم ہو
کیسے رغبت ہو ان کو پھولوں سے
جن کا ہونٹوں سے خیر مقدم ہو
یہ جو پتھر سا دل ملا ہے مجھے
تیری قربت ملے، تو نیلم ہو

103
عشق کرنے سے بھلا کیا مسئلہ ہو جائے گا
لوگ یوں ڈرتے ہیں جیسے حادثہ ہو جائے گا
صبح دم اٹھ کر مرے ماتھے پہ بوسہ دے اگر
تیرے یہ کرنے سے میرا ناشتہ ہو جائے گا
ایسی زیبائی ملی ہے اِس وطن کو دوستو
جس کو پورا دیکھ کر دل آئنہ ہو جائے گا

0
89
بات گر سرسری ہوئی ہوتی
شام تک واپسی ہوئی ہوتی
شرٹ پہنی تو یہ ملال آیا
آپ سے استری ہوئی ہوتی
اُس کو چھیڑا نہیں ہے تتلی نے
پھول کو گدگدی ہوئی ہوتی

0
138
اک ذرا سی بات پر یہ تلملاتی لڑکیاں
اہلِ طب کہتے ہیں اِن کو نفسیاتی لڑکیاں
کیا بنے اُس کیمرے کا جس میں دونوں قید ہوں
پھول کھلنے کے مناظر، مسکراتی لڑکیاں
سب عناصر ہی غضب ہیں رنگ کی ترسیل کے
مور، اڑتی تتلیاں اور انگڑاتی لڑکیاں

144
تیری حرمت پہ واروں سخن، اے وطن!
تو مری آرزو کا بدن، اے وطن!
تیری گلیوں کو "دِل" سے مزین کروں
اِن کے شایاں نہیں نسترن، اے وطن!
آج کہسار و گلزار و دریا ترے
ہیں بہاروں پہ سایہ فگن ،اے وطن!

526
یوں ڈر کے بگولوں سے تو ہجرت نہیں ہوتی
یہ دل ہے اسے دشت سے وحشت نہیں ہوتی
مل جائے اداسی تو یہ پوچھوں گا بٹھا کر
وہ کیوں مرے کاشانے سے رخصت نہیں ہوتی
خود آنکھ کو لے جانا پڑے گا ہمیں اک دن
اُن سے تو یہاں آنے کی زحمت نہیں ہوتی

2
191
دن تھک گیا تو شام میں تبدیل ہو گیا
منظر اٹھا اور آنکھ میں تحلیل ہو گیا
مرہم بنے یہ شوق تھا بیمار کا سو پھر
اک ہاتھ کھل کے شوق کی تکمیل ہو گیا
مسکن بنا رکھا ہے تو نے یار اس لئے
یہ دل ترے قیام سے قندیل ہو گیا

84
جب تلک تم آؤ گے لوٹ کر مکینوں میں
غزلیں ہو چکی ہوں گے منفرد زمینوں میں
ہم کو بھیج دیتا ہے بے بسی کے پردے پر
اور بیٹھ جاتا ہے عشق فلم بینوں میں
کس قدر بہائے ہیں اشک یہ بتائیں گی
جان پڑنا باقی ہے اپنی آستینوں میں

167
کون ملتا ہے یہاں پر ساکنینِ ہجر سے
آہ! کب ہجرت کریں گے ہم زمینِ ہجر سے
عشق جوگی آ رہا ہے آج اپنے گاؤں میں
یاد کا اژدھا نکالے گا وہ بینِ ہجر سے
چار غزلیں بن گئی ہیں اُس قتالہ کے لئے
دیکھئے اب کیا بنائیں ہم مشینِ ہجر سے

98
مرے بے ربط جملوں کو توازن تک رسائی دے
ترا ہنسنا تخیل کو غزل سے آشنائی دے
گلے میں ہار سمجھوں کا تمہاری شوخ بانہوں کا
اگر دینا ہے تحفے میں مجھے کچھ بھی تو ٹائی دے
مرے دلکش کی خوبی ہے، عنایت کرتا رہتا ہے
کبھی بوسوں کے گل دستے ، کبھی دستِ حنائی دے

0
113
تیری صورت کو فراموش نہیں کر سکتا
کوئی چہرہ مجھے مدہوش نہیں کر سکتا
ایک شاعر ہوں مداری تو نہیں ہوں صاحب
تیرے رومال کو خرگوش نہیں کر سکتا
اتنی عجلت میں نہ پوچھو مجھے چائے پانی
اتنی عجلت میں تو کچھ نوش نہیں کر سکتا

0
84
اگر تیکھا نہیں کہتے تو سادہ باندھ سکتے ہیں
مگر ہم ان سے ملنے کا ارادہ باندھ سکتے ہیں
ہمارے ہاتھ آیا ہے فریبِ دوستی سو ہم
تمہیں اب اپنے پہلو سے زیادہ باندھ سکتے ہیں
بساطِ جان پر بیٹھے ہوئے اک بادشہ چہرے
تری چالوں سے ہم دل کا پیادہ باندھ سکتے ہیں

174
یوں فراہم نہ کر شہرِ جاں ،بے دلی
کس نے سوچا تھا ہوگی یہاں بے دلی
کوئی نسخہ وظیفہ ہے ان کیلئے
جن کی جاتی نہ ہوں ہچکیاں بے دلی
اس مصیبت کا اب اور کس سے کہیں
یار ہوتا نہیں مہرباں بے دلی

179
پہاڑ بات سناتے ہیں اک ندی کی ہمیں
جھلک دکھانے پڑی گی تری ہنسی کی ہمیں
بتاتے جاؤ ہمیں حل بھی اس مصیبت کا
وجہ بتانے جو آئے ہو بے کلی کی ہمیں
یہ اور بات سہولت نہیں ہے کھانے کو
ہوا تو چاہئے ہوتی ہے اُس گلی کی ہمیں

106
ممکن بنا رہا ہوں، مگر بن نہیں رہا
یعنی اسے بھلانے کا اب من نہیں رہا
کوئی ہمارے دشت کو گلشن کہے تو کیوں
یہ تو کسی بھی دور میں گلشن نہیں رہا
ہم پیچھے رہ گئے ہیں ، مگر وہ بھی اس لئے
اپنے یہاں کتب میں نیوٹن نہیں رہا

145
فنونِ بخیہ گری بھی، رفو بھی سامنے ہے
سو دوست سامنے ہے اور عدو بھی سامنے ہے
نہیں ہے ساقی، تو بادہ کشی کی کیا زحمت
وگرنہ ہاتھ میسر، سُبو بھی سامنے ہے

156
یار! ایسے پھول کا کیا بنے وکیل سے
جس کو رد کیا گیا، "ہونٹ" کی دلیل سے
شعبدے کی بات تھی اور میرے دوست لوگ
چاند لے کے آ گئے وہ بھی ایک جھیل سے
"عشق لا علاج ہے" ،آپ کے لباس میں
کون بات کر گیا آج یہ علیل سے؟

130
یہ کس نے آج صحرا کو پانی پلایا ہے
ٹیلے پہ تپتی ریت نے اک دل بنایا ہے
پھولوں کو یاد آ گئی تتلی کی چھیڑ چھاڑ
بادِ صبا نے باغ میں نغمہ سنایا ہے
ایسے میں تجھ کو یاد یہاں کیا کرے کوئی
دھرتی پہ روزگار نے اودھم مچایا ہے

316
رات کالی ہے، آگے مت جانا
دشت خالی ہے، آگے مت جانا
جس کو تم مانگتے ہو ،برسوں سے
خود سوالی ہے، آگے مت جانا
ہجر صدمے میں ہے ابھی اس کو
یاد گالی ہے، آگے مت جانا

150
ویسے بھی تو بیٹھنا بےکار ہوتا ہے میاں
ہونے دینا چاہئے گر پیار ہوتا ہے میاں
پھول بھی ترتیب میں رکھے ہوئے اچھے لگیں
کچھ نمائش کا بھی تو معیار ہوتا ہے میاں
یار آئے تو خبر ہوتی نہیں لاہور کو
اپنے گاؤں میں تو یہ تہوار ہوتا ہے میاں

198
تیرے در پر جو بیٹھے تھے سو دنیا پر چھائے تھے
ورنہ ہم بھی لوگوں جیسے لوگوں سے ہی آئے تھے
جب تک تم نے اُن کو دیکھا پھولوں نے زیبائش کی
تم نے آنکھیں پھیری تھیں تو پھر وہ بھی مرجھائے تھے
میرے ہاتھوں کی گلیوں میں جوگی رستہ بھول گیا
میں نے اس کو آڑے ترچھے سارے خط دکھلائے تھے

128
کیسے ہوائے شہرِ ستمگر کو سونپ دیں
بہتر ہے یہ چراغ کسی گھر کو سونپ دیں
چٹھی تو بھیج دیتے ہیں روزانہ آپ لوگ
ایسا کریں کے دل بھی کبوتر کو سونپ دیں
اب کے سمن، گلاب و ٹیولپ کی رائے ہے
خوشبو کا کام زلفِ معطر کو سونپ دیں

5
165
پھولوں کی جگہ ہاتھ سے اجگر نکل آتے
دل جن پہ بھی آتا وہ ستمگر نکل آتے
جس دن ترا آنا یہاں تازہ ہوا لاتا
اس شام مری چھت پہ کبوتر نکل آتے
گوگل نے وہاں بانٹا ہے عرفان وغیرہ
تم اینٹ اٹھاتے تو قلم ور نکل آتے

141
کتنے برسوں کی مشقت سے یہ افسانہ کُھلا
ہم بہت خوش ہیں کہ ہم پر دل کا ویرانہ کُھلا
آپ کو اس بات پر تھوڑا ٹھٹھکنا چاہئے
آج مرہم کے لئے اک ہاتھ بیگانہ کُھلا
اب کے رندوں سے ہماری یوں بھی منہ ماری ہوئی
اُن پہ ساغر بھی نہیں اور ہم پہ مے خانہ کُھلا

160
جس جوگی کی گہری آنکھیں ہر ناگن پر بھاری ہیں
اس جوگی کی کٹیا میں بھی یادوں نے پھنکارا ہے
آ بتلاؤں اس گاؤں کی سب سے شوخ قتالہ کا
اس کے ہونٹوں پر لالی ہے، سانسوں میں اکتارا ہے
یہ جس کو ہم شب کہتے ہیں، اُن زلفوں کی اترن ہے
یہ جس کو ہم دن کہتے ہیں، مکھڑے کا لشکارا ہے

286
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
لحد میں اہل ایماں کب بھلا غمگین ہوتے ہیں
سنا ہے اُن کی تسکیں کو وہاں یاسین ہوتے ہیں
خدایا نام لکھ دینا ہمارا ایسے لوگوں میں
جو سرکارِ مدینہ کے نگر تدفین ہوتے ہیں
اے زائر پہلے لازم ہے، مدینہ سے اُدھر جانا

1
128
ایک چہرے کی پرستار بھی ہو سکتی ہے
آنکھ، آنکھوں کی طلب گار بھی ہو سکتی ہے
پہلے ہوتا تھا کہ صحرا نہیں لیتا تھا کوئی
آج کل دشت پہ تکرار بھی ہو سکتی ہے
یوں سہولت بھی نہیں دے کہ میں ڈر جاتا ہوں۔
یہ سہولت ترا معیار بھی ہو سکتی ہے۔

113
وہ آئی تو لے کر آئی شہر کی چھیل چھبیلی شام
میں اور گاؤں جھیل رہے تھے برسوں سے شرمیلی شام
اُس کو ملنا بھول گیا ہے بارش کی سرشاری میں
اب ہم اپنے گھر میں بیٹھے دیکھ رہے ہیں گیلی شام
دن ڈھلنے پر ایک حسینہ میک اپ کر کے بیٹھی ہو
اچھا تو اس کو کہتے ہیں یہ ہے اک بھڑکیلی شام ؟

106
خامشی ہو وہ تری یا کہ سخن ،اچھا ہے
جو بھی ہے تجھ میں مرے یار وہ فن اچھا ہے
تو مسیحا ہے کہ مرہم ، یا شفا ہے، کیا ہے؟
تجھ کو چھو کر مری نظروں کا بدن اچھا ہے
ہم سے وہ چال چلا، جس کی تھی نیکی مشہور
جس کا سنتے تھے بہت چال چلن اچھا ہے

131
ہجر رُت میں گلاب جھیلے ہیں
ہم نے یوں بھی عذاب جھیلے ہیں
شہرِ لاہور تیری گلیوں نے
کیسے کیسے شباب جھیلے ہیں
عشق! استاد مان لے ہم کو
تجھ سے خانہ خراب جھیلے ہیں

172
فلک نشینوں کا وار ہوتے ہوئے بچی ہے
زمیں کی دھڑکن نثار ہوتے ہوئے بچی ہے
ابھی جو خوش ہے کہ دوستوں میں ہے اول اول
وہ دشمنوں میں شمار ہوتے ہوئے بچی ہے
تمہاری چپ کا یہ مسئلہ ہے کہ اب محبت
مروتوں کا شکار ہوتے ہوئے بچی ہے

103
یاد کرتا رہ گیا وہ اپنے پروانے کا نام
ویسے آتا تھا اسے بھی قیس دیوانے کا نام
خار کہتے ہیں یہاں اس خوبرو کے ہجر کو
پھول ہے اس گل بدن کے آ کے مل جانے کا نام
ساقیانِ شہر نے مل کر مری تائید کی
تیری آنکھوں پر رکھیں گے اپنے مے خانے کا نام

90
ایک پل میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو ،میری رنگوں کی دنیا سے کٹ جائے گی
یہ اداسی جو بندھی ہوئی ہے ابھی ،یہ بپھر جائے گی مجھ کو چٹ جائے گی
ایک میں ہوں کہ خود کو بھی کافی نہیں اور اسی ڈر میں گھر سے نکلتا نہیں
تو ہے مہتاب تجھ کو یہ ڈر بھی نہیں، تیری لو پورے عالم میں بٹ جائے گی
کیا یہ اچھا نہیں ہے میں دنیا نہ لوں ،تیرے در کی ہی چوکھٹ کا سائل رہوں
کیونکہ دنیا تو کتنی بڑی کیوں نہ ہو تیری چوکھٹ پہ جا کر سمٹ جائے گی

0
256
اے مری زمیں بتا، آسماں کو کیا ہوا؟
چاندنی کہاں گئی، کہکشاں کو کیا ہوا؟
سوچتے ہیں بیٹھ کر کہ دشمنوں سے کیا کہیں
گھاؤ کیوں نہیں بھرے، مہرباں کو کیا ہوا؟
یار سامنے ہے اور مجھ سے لفظ کھو گئے
بولنے کا وقت ہے اب زباں کو کیا ہوا؟

114
وہ دل جو اپنے پاس ہو اور بے قرار ہو
اُس سے فرار ہو بھی تو کتنا فرار ہو
ساقی ترے مے خانے میں مے ہو کہ یا نہیں
اب کے میں چاہتا ہوں کوئی غم گسار ہو
تم ہو قبائے حرف پہ اتری ہوئی پری
جو بھی تمہارے ساتھ ہو نغمہ نگار ہو

141
اے گل ترے درشن کے طلبگار ہیں دونوں
بلبل ہو کہ عاشق ہو ،گرفتار ہیں دونوں
کس کس کی محبت سے مدارت سے بنی ہے
ہم پر تو بہت بار ہیں, آزار ہیں دونوں
اس مرضِ محبت کا کوئی توڑ نہیں ہے
اور اس پہ یہ صورت ہے کہ بیمار ہیں دونوں

129
یہ جو یاقوت ہونٹوں پر سجاوٹ ڈالی جاتی ہے
ہماری نیند کے آگے رکاوٹ ڈالی جاتی ہے
ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اب خواہش چھپانے کو
کسی معصوم چہرے پر دکھاوٹ ڈالی جاتی ہے
تمہارے شہر میں یوں بھی گلے ملنے سے ڈرتے ہیں
یہاں مل کر کلیجوں میں کھچاوٹ ڈالی جاتی ہے

181
اپنا کیا ہے جس کو پرکھا ہر اک نے حیران کیا
پھول سےٹھوکر کھا کر آئے، پتھر نے احسان کیا
جانے کیسا منتر پھونکا یاد کی جادوگرنی نے
جو ہلکان نہیں ہوتے تھے اُن کو بھی ہلکان کیا
ان کو دیکھ کے پھینک آئے ہیں نیلم کو ہم نیلم میں
تم نے سرخی سے چمکا کر ہونٹوں کو مرجان کیا

128
تارے ہنستے بھی ملے،چاند چمکتا بھی ملا
دشت تو دشت تھا لیکن وہ مہکتا بھی ملا
بات کہنی تو نہیں چاہیے پر تیرے بعد
دل سلامت بھی رہا اور دھڑکتا بھی ملا
ایک دو شعر کسی آنکھ نے مجھ کو سونپا
ایک دو شعر مجھے یونہی بھٹکتا بھی ملا

1
168
موسم کی بات کیوں سنیں؟ کیا دل کشی کریں؟
دیکھیں تجھے یا شام کی منظر کشی کریں
صاحب ہمارے واسطے مے خانہ آپ ہیں
آنکھیں ذرا ملائیں تو ہم مے کشی کریں
ابرو سے یہ کہو کہ سنبھلنے کا وقت دیں
ہو جائے دل بحال تو لشکر کشی کریں

157
تم کو اندازہ نہیں ہے آنکھ کی یلغار کا
اس سے بے شک کام لے لو جان_ جاں تلوار کا
اک سراپے سے ملے ہیں ساری شکلوں کےسراغ
مستطیلیں، زاویے اور دائرہ پرکار کا
تیرا آنچل دیکھ کر یہ اب تلک سکتے میں ہے
دیکھ کیسے منہ کھلا ہے سامنے دیوار کا

118
جب اداسی پگھلنے لگتی ہے
آنکھ دریا اگلنے لگتی ہے
بستر_ ہجر چیخ اٹھتا ہے
یاد کروٹ بدلنے لگتی ہے
عین اس وقت یاد آتے ہو
جب طبیعت سنھبلنے لگتی ہے

146
دل سا دشمن جو کہ اپنا یا کسی کا نہ بنے
تجھ کو دیکھے تو ترے حسن کا دیوانہ بنے
بس کہیں ایک جگہ بیٹھ جا آنکھیں لے کر
کیا ضروری ہے ترے شہر میں مے خانہ بنے
عشق دیکھے جو ترے پاؤں، بنے وہ جوتا
جب ترے ہاتھ دکھاؤں تو وہ دستانہ بنے

83
جاتے نہیں وہاں جہاں جانے کا دل کرے
پھر کیا پتہ وہاں سے نہ آنے کا دل کرے
کھل کر بتا مجھے جو تمہارا کرے یہاں
ایسے نہیں بتا کہ فلانے کا دل کرے
تیری جھلک کے واسطے بننا پڑے اگر
ہر دم بنا رہوں یہ بہانے کا دل کرے

138
دیکھو کیسے جھوم رہا ہے سب جنگل سرشاری سے
لالے کا اک پھول کھلا ہے برسوں کی تیاری سے
غزلیں لکھیں، اشک بہائے، تاروں کی نگرانی کی
اور بھی ڈھیروں کام لیے ہیں ہم نے شب بیداری سے
تیرا دامن چاک نہیں ہے، ہم نے پھر بھی آنا ہے
جی کرتا ہے رنگ بکھیریں اس میں میناکاری سے

90
اپنی اقدار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
اور پھر یار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
آپ پھر آپ ہیں سنتے ہیں سمجھتے بھی ہیں
ہم تو دیوار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ
اپنا معیار الگ تھا، جو کہ دنیا کا نہ تھا
اپنے معیار کی خاطر بھی اٹھاتے رہے دکھ

139
کیا آدمی ایسے چہرے پر قرباں بھی نہ ہو، پاگل بھی نہ ہو
وہ جس کی حسین سی آنکھوں میں کوئی تل بھی نہ ہو، کاجل بھی نہ ہو
تو کل جانے کا کہہ ڈالے تو آج کو پر لگ جاتے ہیں
تو کل آنے کا کہہ ڈالے تو ہم ایسوں کی کل بھی نہ ہو
ہم اسکا سامنا چاہتے ہیں اور ایسا سامنا چاہتے ہیں
مسجد بھی نہ ہو، مندر بھی نہ ہو، محفل بھی نہ ہو، مقتل بھی نہ ہو

79
گنگناتے رہو مسکراتے رہو
تم یونہی گاؤں میں آتے جاتے رہو
آؤ بیٹھو یہاں میرے پہلو میں تم
کس نے بولا ہے یوں ہچکچاتے رہو
حالِ دنیا سناؤ کسی اور کو
مجھ کو اپنی سناؤ سناتے رہو

243
کوئی اپنا نظر نہیں آتا
چاند کیونکر اتر نہیں آتا
ہم وہ جنگل ہیں جس کے حصے میں
کوئی تیکھا شجر نہیں آتا
اس کو جن کی اشد ضرورت ہے
ان میں میرا جگر نہیں آتا

224
وحشت ہے بے لگام, ستارو دعا کرو
اب ڈھل گئی ہے شام, ستارو دعا کرو
درپیش اس گھڑی میں کوئی حادثہ نہ ہو
اٹھنے لگا ہے جام, ستارو دعا کرو
اُس سے ہوائے کوچہء عشاق جب ملے
کہہ دے مرا سلام، ستارو دعا کرو

1
199
اس کو نہیں ہے ڈر کسی چشمِ سیاہ کا
یہ دل تو اک ملنگ ہے اُس خانقاہ کا
میں تو یہاں پہ رند ہوں ،مستی میں مست ہوں
زاہد سے جا کے پوچھ لیں مطلب گناہ کا
جس آنکھ نے سکھائی ہے مصرع گری ہمیں
حصہ اُسے بھی جاتا ہے شعروں پہ واہ کا

0
143
جب عشق کرامت کرتا ہے
ولیوں کی امامت کرتا ہے
کچھ لوگ ضمیر سے تنگ بھی ہیں
کیونکہ یہ ملامت کرتا ہے
یہاں جس نے "دل" سمجھانا ہو
وہ دشت علامت کرتا ہے

161
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
رضی اللہ تعالی عنہما
دل میں چلتی ہوئی پھلجھڑی نعت ہے
"آمد_ مصطفی کی خوشی نعت ہے"
وہ جو ساقی ہیں کوثر کے مے خانے کے
ان کے رندوں کی بادہ کشی نعت ہے

154
ذرا سی بات پر روتا تھا اور غمگین ہوتا تھا
یہ تب کی بات ہے جب دل بڑا مسکین ہوتا تھا
تمہیں جب بھی بلاتے تھے صنم کہہ کر بلاتے تھے
تمہارا نام لینا بھی ہمیں توہین ہوتا تھا
غزل میں دھاک بیٹھی ہے تمہارے نین نقشے کی
تمہاری آنکھ سے مصرع یہاں تضمین ہوتا تھا

1
167
جو بھی تمہارے آستاں کے روبرو نہ ہو
اس سے مری خیال میں بھی گفتگو نہ ہو
واعظ دعا کرو کہ اگر مے کدے سے ہم
اٹھنے لگیں تو گھات میں کوئی سبو نہ ہو
میں جانتا ہوں چار سو ہونا ہے اک سراب
سو تو نظر سے ہٹ کے مرے چار سو نہ ہو

99
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
دونوں عالم جھوم رہے ہیں آمد کی سرشاری میں۔
کعبے نے بھی جھنڈا تھاما، آنے کی تیاری میں۔
اے شہر_ سرکار ہمارے حال پہ تھوڑی شفقت رکھ۔
ہم کو تم درکار رہو گے دھڑکن کی ہمواری میں۔
مجھ کو آسانی پہنچی ہے اسم_ نبی کے صدقے میں۔

1
135
ہم سے بہتے ہوئے اشکوں کی روانی مت پوچھ
اور کچھ پوچھ محبت کی کہانی مت پوچھ
کوئی زلفیں تھیں کہ کندھوں سے کمر تک پہنچیں
کیسے بل کھائے ہوئے آئی جوانی مت پوچھ
شستہ اردو میں کہے صاف مکمل جملے
اس تکلم کی ہمیں بات بتانی مت پوچھ

121
یہ تو کہ جس کو چمن کا وزیر ہونا تھا
تجھے بھی دشت و جنوں کا اسیر ہونا تھا
تمہارا ساتھ میسر نہیں ہوا ورنہ
ہمارے گھر نے بھی جنت نظیر ہونا تھا
سو ہم نے نیند بھگائی قلم کا ساتھ دیا
کہ ہم کو شہر سخن کا امیر ہونا تھا

112
بیٹھے ہو میرے دل میں بسیرا کئے ہوئے
اور پوچھتے ہو کیا ہے اجالا کئے ہوئے
ہم کو وہ ایک یاد ابھی تک ستاتی ہے
مدت ہوئی ہے جس کا ازالہ کئے ہوئے
ہر اک سے بولتا ہے مرے بارے میں غلط
میں ہوں کہ اُس بشر کو فرشتہ کئے ہوئے

176
داغ_ آوارگی کو دھونا ہے
ہم کو اک دن کسی کا ہونا ہے
ایسی پہچان کیا کرے کوئی
جس کو پہچان کر بھی کھونا ہے
اُس کی باتوں پہ ہنس نہیں سکتے
میرے یارو! یہی تو رونا ہے

124
آسمانوں سے لوٹ آنا پڑا
اک پرندے کو گھر بنانا پڑا
میری حیرت کی انتہا نہ رہی
آپ کو آج مسکرانا پڑا
بس مجھے عشق ہی نہیں صاحب
دشت کا ہاتھ بھی بٹانا پڑا

141
کس قدر انقلاب دل میں ہے
آج کل اجتناب دل میں ہے
ہم پہ ظاہر ہے تیری بینائی
تیری خاطر گلاب دل میں ہے
تیرے غمزوں کا میری آنکھوں میں
اور تل کا جواب دل میں ہے

123
ہمارے ساتھ میں آئے تو کوئی بات بنے
تو اپنا ہاتھ تھمائے تو کوئی بات بنے
وہ ایک بات جو ہم سے چھپا کہ رکھتا ہے
ہمیں وہ بات بتائے تو کوئی بات بنے
یہ پھول، جھیل، سمندر، پہاڑ، کچھ بھی نہیں
تو اپنا کمرہ دکھائے تو کوئی بات بنے

131
جو سہاروں کی بات ہوتی ہے
عین یاروں کی بات ہوتی ہے
صبح تک چاند سے، چراغوں سے
ہم ستاروں کی بات ہوتی ہے
دل جسے دل لگا کے سنتا ہے
اپنے پیاروں کی بات ہوتی ہے

154
ہر پھول تک رسائی ہے ،خوشبو بھی پاس ہے
لیکن ترے بغیر مرا دل اداس ہے
زنداں سے خوب نبھتی ہے اس واسطے بھی دوست
مدت سے ہم کو جسم کی صورت یہ راس ہے
اِس کو کیا بھرے گا کوئی شربتِ ملن
یہ دل ہے دوست کونسا کوئی گلاس ہے

111
جہاں پر بٹ رہے ہوں خوشنما ٹکسال کے بوسے
وہاں پر کون لیتا ہے کسی کنگال کے بوسے
یہ اپنے گرد گھومے تو فقط اک دائرہ چومے
کہاں پرکار لیتی ہی سبھی اشکال کے بوسے
اگر تیری نظر کو دل پہ روکیں ہم تو اے دشمن
ترے لشکر نے لینے ہیں ہماری ڈھال کے بوسے

187
کسی نے ہم کو پکارا, تو وقت تھم سا گیا
ذرا سا وقت گزارا، تو وقت تھم سا گیا
وگرنہ میری کلائی میں چلتا رہتا تھا
گھڑی کا عکس اتارا تو وقت تھم سا گیا

160
ایک بت سے جو آشنائی ہوئی
پھر مخالف مرے خدائی ہوئی
تیرا سورج بجھا گیا ہے کون
اے مری شامِ غم، ستائی ہوئی
عمر بھر ہم کو مست رکھے گی
مے، تری آنکھ کی پلائی ہوئی

107
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
حضور آیا ہے اک دوانہ حضور سن لیں کلام اِس کا
حضور سن لیں درود اِس کا، حضور سن لیں سلام اِس کا
ہمیں یہیں پر ہی پلنے دیجے گلی سے اپنی جدا نہ کیجے
کہ کائناتوں سے ڈھیر آگے ہے ہم نے جانا مقام اِس کا
حضور یہ لٹ کہ آ گیا ہے حضور اس کو مدینہ کیجے

123
معبد کے مین ہال میں لگے گھڑیال نے
رات کے ایک بجنے کا اعلان کر دیا ہے
میری چھت سے اوپر
بہت اوپر
ایک ستارہ جگمگا رہا ہے
کہکشائیں رقص کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں

171
اس کو میرا یقیں نہیں ہوتا
ایسا ہر گز کہیں نہیں ہوتا
کس نے معیار کو گھٹایا ہے
چاند زُہرہ جبیں نہیں ہوتا
فیصلہ ہم سفر پہ ہوتا ہے
راستہ دلنشیں نہیں ہوتا

331
کیوں کر اسے زمین کی رہ پر دھکیلا تھا؟
کیا آسماں میں چاند بہت ہی اکیلا تھا؟
اک تم کہ شہرِ وصل کے مہنگے وکیل تھے
اک میں کہ جیب میں کوئی پیسہ نا دھیلا تھا

107
ایسے جنجال ہیں محبت کے
پھول مرجھا گئے طبیعت کے
اپنی حالت عجیب حالت ہے
ہم نہیں اب کسی بھی حالت کے
کتنا دشوار ہے یہاں ہونا
کتنے آلام ہیں حقیقت کے

185
کیسے ہنستی ہوئی آنکھوں کو یوں رونے دیتا
عشق آسان نہیں تھا کہ میں ہونے دیتا
ہم کو بس ایک گلہ ہے ترے بخشے غم سے
کچھ بھی کرنے نہیں دیتا تھا تو سونے دیتا
تو بلائے تو انہیں بیگ میں رکھنا پڑ جائے
یہ وہ خدشہ ہے جو کپڑے نہیں دھونے دیتا

93
مان لیجے جناب تھی ہی نہیں
آپ کی آب و تاب تھی ہی نہیں
آنکھ تھی، جم کے ایستادہ تھی
مے کدے میں شراب تھی ہی نہیں
اس کو بس تھوڑی سی محبت تھی
درجنوں کے حساب تھی ہی نہیں

160
دل میں بیٹھا ہے کوئی چور ،نہیں جا سکتا
مجھ کو جانا ہے کہیں اور نہیں جا سکتا
وہ ستارہ ہو کہ جگنو ،یا ہو کوئی تتلی
تیرے کمرے سے کوئی بور نہیں جا سکتا
چاہے نقشے میں سبھی رنگ، لکیریں لے لے
اک ہتھیلی پہ یہ لاہور نہیں جا سکتا

174
میرے ہوتے ہوئے؟ لاحول، نہیں بن سکتا
یار! یہ دل ہے، یہ کشکول نہیں بن سکتا
ایسی آنکھوں کا کرے کون بھروسا جن سے
موڈ بن سکتا ہے، ماحول نہیں بن سکتا
تجھ کو میرا نہیں بننا ہے تو چھپتا مت پھر
بس مرے سامنے آ ،بول نہیں بن سکتا

91
اس کو رہنا ہے اگر کوئی حوالہ بن کر
تو مرے ساتھ رہے ہاتھ کا چھالا بن کر
تیری چمکار کو مدھم نہیں کرنے والا
تُو مرے گھر میں بھی رہ لے گی اجالا بن کر
جانے خدشات کو تکنیک سکھائی کس نے
اب یہ ذہنوں کو بھی لگ جاتے ہیں جالا بن کر

150
تیری خاطر تو یہ زحمت نہیں کرنے والا
کچھ بھی کر لے میں محبت نہیں کرنے والا
میں ترے ساتھ چلوں گا گھڑی کے چلنے تک
ایک دو دن کی مسافت نہیں کرنے والا
تجھ کو معلوم ہے میرا کہ میں اچھے دل سے
ملنے والا ہوں شرارت نہیں کرنے والا

125
اچھا سا ایک کارڈ اور موتیے کے پھول
ہم کو بھی یار آتے ہیں یہ پیار کے اصول
اک دن بہک کے ڈھونڈا ہتھوڑے کو فون سے
دیکھا تھا ایک خانے میں لکھا کہیں پہ ٹول
ویسے تو بار بار تجھے دیکھتے نہیں
لیکن ترے خیال کو ہم دے رہے ہیں طول

161
اگر وہ یاد ہونے لگ پڑے گا
تو دل آباد ہونے لگ پڑے گا
ترا خوشبو یہاں تھوڑے دنوں میں
بدن ایجاد ہونے لگ پڑے گا
اگر میں غم نہیں روکوں تو یہ غم
مرا ہمزاد ہونے لگ پڑے گا

144
اب میں اس کو ہنر سمجھتا ہوں
تیری آواز سوچ سکتا ہوں
جس تسلسل میں تیرے عارض ہیں
اُس تسلسل میں شعر کہتا ہوں
کوئی وہ نام جانتا ہی نہیں
کون جانے کہ کس پہ مرتا ہوں

177
رات تھم جائے، مقدر کا ستارا جاگے
چاند اترے تو مرے گھر میں اجالا جاگے
یہ جو کہتی ہے فقط عشق اسے کرنا ہے
ایک لڑکی میں غلط شے کا تقاضا جاگے
ورنہ پیسوں کا نشہ دھت کئے رکھتا ہے
کوئی مر جائے تو گاؤں کا مسیحا جاگے

185
دیکھ! انکار پر نہیں ملتا
عشق، اصرار پر نہیں ملتا
یہ بھی انعام ہے کہ بندوں کو
رزق کردار پر نہیں ملتا
ایک نقشہ تھا دل محلے کا
اب وہ رخسار پر نہیں ملتا

152
تم نے دیکھا تھا وہاں آنکھ دبانا میرا
اس کا مطلب ہے لگا ٹھیک نشانہ میرا
اس سے پہلے کے زمانے کا مجھے علم نہیں
اس سے آگے کا زمانہ ہے زمانہ میرا
مجھ سے ملتا ہے ترا غم یوں گرمجوشی سے
جیسے ملتا ہو کوئی یار پرانا میرا

200
صبر کو اختیار کرتے ہوئے
مر گئے انتظار کرتے ہوئے
عشق جی لے تو کتنا جی لے گا
دشت پر انحصار کرتے ہوئے
دیکھ یوں انگلیاں نہ جھڑ جائیں
میرے دکھ کو شمار کرتے ہوئے

161
اپنی تصویر بھیجتا ہوں تجھے
تجھ سے ہر روز مانگتا ہوں تجھے
اے مرے دل مزید کچھ دن میں
اسکے پہلو میں دیکھتا ہوں تجھے
میری خواہش ہے خواب اچھے ہوں
اپنے تکیے پہ کاڑھتا ہوں تجھے

179
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
خوبصورت جہان سے نکلا
رنگ ان کے مکان سے نکلا
ڈھونڈنے پر پتہ شفاعت کا
آپ کے خاندان سے نکلا
سب زمانوں کی سیر کرتا ہے

1
131
جانبِ دل کمان سے نکلا
تیر تل کے نشان سے نکلا
ہجر حیرت سے مر گیا جب وہ
یاد کے مرتبان سے نکلا
ہم پرندوں میں ڈھنگ اڑنے کا
تیری پہلی اڑان سے نکلا

120
تیری آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے
چاند کمرے میں جھانک سکتا ہے
ایک معصوم دلربا چہرہ
میرے جانے کو روک سکتا ہے
تیرا ہنسنا کسی بھی مردے میں
اک نئی روح پھونک سکتا ہے

1
253
ہم جو آپس میں لڑے رہتے ہیں
پھول شاخوں پہ پڑے رہتے ہیں
اب تو الفاظ کی یہ حالت ہے
تیرے پہلو میں کھڑے رہتے ہیں
آپ آتے ہیں گزر جاتے ہیں
لوگ کونے میں کھڑے رہتے ہیں

170
اس کو معلوم نہیں تھا کہ تو صندل ہو گا
تجھ سے بچھڑا ہے پتہ ہو کہ تو پاگل ہو گا
یہ جو لگتا ہے کوئی شخص پکارے ہے مجھے
یہ مرے ذہن کا دھوکا ہے مسلسل ہو گا
چڑیا جس پیڑ میں رہنے کی جگہ ڈھونڈتی تھی
اس کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ مقتل ہو گا

103
لوگ یوں بھی اداس ہیں میرے
میرے بس میں حواس ہیں میرے
تیری آنکھوں سے بھرنا چاہوں گا
یہ جو خالی گلاس ہیں میرے
مجھ سے زنداں میں ملنے آتے تھے
غم طبیعت شناس ہیں میرے

191
گنگناتے ہوئے گزرتی ہے
دل کو بھاتے ہوئے گزرتی ہے
کون ہیں وہ کہ زندگی جن کی
مسکراتے ہوئے گزرتی ہے
اس سے ملتا ہوں تو کوئی ساعت
جھلملاتے ہوئے گزرتی ہے

139
ہمسفر وہ ہو تو رستہ چل پڑے
زُہرہ سیدھا ،راوی الٹا چل پڑے
پھر گلا تو سوکھ جائے گا یہاں
اس کی آنکھوں سے جو چشمہ چل پڑے
تیری تصویریں لگائی ہوں اگر
ہوٹلوں کے بیچ ڈھابہ چل پڑے

157
تم نے دیکھی ہے وہ ناگن جس کے لب ہوں امرت جل؟
میں تو دیوانہ ہوں یارو، ایسی ہی اک ناگن کا
اُس نے لیٹے لیٹے اپنے کمرے میں انگڑائی لی
دیواروں سے خوشبو پھوٹی، چہرہ چمکا آنگن کا
دیکھا کچھ تو لگتا ہوں ناں میں تیرا اس رشتے سے
تیرے میرے بیچ رہا ہے جاناں، بندھن ان بن کا

111
اس کی آنکھوں کو اُسے جھیل بتاتا ہوں میں
وہ سمجھتا ہے کہ ہنستا ہوں، ستاتا ہوں میں
اس سے زیادہ مرے لفظوں کا نصیبا کیا ہو
اُس پہ لکھتا ہوں اسے روز سناتا ہوں میں
تو ہے روپوش تو پھر میں بھی یہیں بیٹھا ہوں
تو مرے سامنے آ، بھاگ کے آتا ہوں میں

187
کوئی اس شان سے پیتا رہا ہے
کہ ساقی جام ہی بھرتا رہا ہے
کسی کے وصل کے ڈنکے بجے ہیں
کسی کے ہجر کا چرچا رہا ہے
یہاں اک شخص کو ہم ڈھونڈتے ہیں
جسے وہ آدمی ملتا رہا ہے

173
مجھے یاد آ رہے ہیں وہ زمانے رنگ و بو کے
مرے اختیار میں جب تھے خزانے رنگ و بو کے
میں نے اس کو لکھ کے بھیجا مرے کان سُن پڑے ہیں
مجھے آ گیا سنانے وہ ترانے رنگ و بو کے
ترے ہاتھ کی ہتھیلی، ترا روم، تیرا بستر
وہاں آج تک مسلسل ہیں ٹھکانے رنگ و بو کے

110
مل کے بے اختیار بجتے ہیں
دھڑکنوں میں گٹار بجتے ہیں
تم یہ گھر میں نہیں سمجھ سکتے
کیسے دفتر میں چار بجتے ہیں
دکھ سپیکر ہیں دل کی مسجد کے
روز ہی پانچ بار بجتے ہیں

143
سوچا جو تیرا نام طبیعت سنبھل گئی
لیکن ترے خیال میں چائے ابل گئی
اب عشق بھی زمیں پہ بجاتا ہے تالیاں
اک وصل کے مدار میں پہلی شٹل گئی
کہہ دو یہ اپنے خواب سے چھکے پہ زور دے
اب دور تیز آ گیا ،سنگل ڈبل گئی

92
کیوں نہ آیا تُو میرے گاؤں میں؟
بیڑیاں پڑ گئیں تھیں پاؤں میں؟
اے ہرے پیڑ سرد موسم میں
کون بیٹھے گا تیری چھاؤں میں
تو محبت کرے تو پھر پوچھوں
کتنی حسرت ہے کچھ دعاؤں میں

178
رنگوں پہ مشتمل ہے, خوشبو پہ مشتمل ہے
جس کی زباں کا لہجہ اردو پہ مشتمل ہے
اس کو نہیں ضرورت جھومر کوئی سجائے
اس کی جبیں کا زیور ابرو پہ مشتمل ہے
مجھ کو بھی ہیں میسر زلفوں کے شوخ سائے
میرا بھی اب سرہانا بازو پہ مشتمل ہے

2
161
نجف میں جائیں بہاروں سے مل کے آئیں ہم
سخا کے، علم کے، دھاروں سے مل کے آئیں ہم
کرم رہا ہے کریموں کا اپنی حالت پر
سو ،جا کے اپنے سہاروں سے مل کے آئیں ہم
علی ولی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے تصدق سے سب کو ملتا ہے
اگر چلو تو ہزاروں سے مل کے آئیں ہم

114
اب بھی نہ تیرے ہاتھ اُٹھے مغموم دیکھ کر
سو دکھ ہوا ہے یہ دلِ مرحوم دیکھ کر
ہم لوگ کیا کریں کہ وہ اب بھی نہیں ہے خوش
یہ شہر اپنے نام سے موسوم دیکھ کر
ویسے تو اس کی بات سے بچہ بھی نا دبے
ہم کو دبا رہا ہے وہ مظلوم دیکھ کر

175
دل میں مت وہم کو لاؤ، کہ یہ میرا دل ہے
اس میں دل کھول کے آؤ ،کہ یہ میرا دل ہے
تم نے دلجوئی تو کی خوب مگر بہتر ہے
اس کو غزلیں بھی سناؤ کہ یہ میرا دل ہے
دل میں ویسے تو رہو شان سے لیکن پیارے
اس میں رستے نہ بناؤ، کہ یہ میرا دل ہے

0
137
گر تجھے مجھ سے نفرتیں ہوں گی
پھر بھلا کیا وضاحتیں ہوں گی
تم سے ملنے کی حالتیں جاناں
میرے جینے کی صورتیں ہوں گی
تیری باتوں سے پھول نکلیں گے
تیرے ہونٹوں پہ نکہتیں ہوں گی

108
ہاتھ میں ہتھوڑا ہے تھیلے میں سرہانا ہے
یعنی کام کرنا ہے اور لیٹ جانا ہے
ہم پری جمالوں کی حالتوں سے واقف ہیں
اپنا حسن والوں سے واسطہ پرانا ہے
پھول اس کے چہرے کو دیکھ کر نکھرتے ہیں
ہم نے اس کو پھولوں کے سامنے بٹھانا ہے

0
132
آج تھک ہار کر سوچتے سوچتے
اس کو جانے دیا، دیکھتے دیکھتے
میکدے سے اٹھے تھوڑے مدہوش تھے
اس کے گھر چل دیئے، جھومتے جھومتے
رات پچھلے پہر اس کے گیسو کھلے
چاند شرما گیا ڈوبتے ڈوبتے

0
145
وطن کے پاسباں! اٹھو
چمن کے نگہباں! اٹھو
اٹھو! کہ اب گلستاں میں، بہاریں نوحہ کرتی ہیں،
خزائیں جم کے بیٹھی ہیں۔
اٹھو! کہ منصفوں نے اب فقط کچھ دام کی خاطر،
یہاں انصاف بیچا ہے۔

0
184
یوں تو سب کے کہنے سے وہ چلی گئی تھی پر
مجھ کو اپنے کمرے سے دیکھتی رہی ہو گی
میرے اٹھ کے آنے پر اپنے گھر کے لوگوں سے
اونچے اونچے لہجے میں بولتی رہی ہو گی
ڈھونڈتی رہی ہو گی میری حیراں آنکھوں کو
دیس دیس جھیلوں میں جھانکتی رہی ہو گی

0
124
ہم نے خواب دیکھے ہیں۔
پانیوں کے چہروں پر ایک چاند صورت کا،
نقش ہم بکھیریں گے۔
اک اداس لڑکی کی پر ملال زلفوں میں،
چاہت و محبت کے کچھ گلاب ٹانکیں گے۔
ہم نے خواب دیکھے ہیں۔

91
نیم وا دریچوں سے جھانکتی ہوئی آنکھوں
اور بکھرے بالوں پر
اب دھیاں نہیں جاتا
سرد سرد راتوں میں بارشوں کے موسم میں
اس کے ساتھ چلنے پر
کچھ گماں نہیں جاتا

126
بے سبب دسمبر کی سہمی سہمی شاموں میں،
دور جانے والوں کا تم ملال کرتے ہو-
بے وجہ لحافوں پر ہونٹ ثبت کرتے ہو-
سردیوں کے موسم میں الجھے الجھے رہتے ہو-
جن کو آنا ہوتا ہے,
وہ کہاں ٹھہرتے ہیں دھند سے یا بارش سے

119
میری جانب دیکھا کر
لوگوں کا مت سوچا کر
اوروں جیسی دکھتی ہے
یوں مت بال بنایا کر
میں تیرا تھا، تیرا ہوں
وہموں کا مت پیچھا کر

5
213
چھوڑو تم گلدانوں کو
سنبھالو مہمانوں کو
کھولو اپنی زلفوں کو
بھڑ کاؤ ارمانوں کو
اپنی آنکھیں دکھلا کر
چھلکا دو پیمانوں کو

0
146
یاد کچھ کیا دلائے گی چائے
اب تو بس جی جلائے گی چائے
میں کسی شام تیرے گھر آؤں
تو مجھے کیا پلائے گی چائے؟
انگلیاں رکھ کے میرے ہاتھوں پر
تو کسی دن گرائے گی چائے

0
110
میرے آثار دیکھتا ہو گا
وہ گلی میں ہی جھانکتا ہو گا
گر وہ آنکھیں نہ درمیاں آئیں
جام جیسا ہو بے مزہ ہو گا
عشق کو آج ہم دغا دیں گے
عقل والوں سے مشورہ ہو گا

0
175
تیری جانب بہتا ہوں
میں اک ایسا دریا ہوں
جس جانب سے نکلو گی
میں رستے میں پڑتا ہوں
تیرے بن یوں لگتا ہے
اک جنگل میں رہتا ہوں

0
145
یا تو اس پری وش سے کھل کے مل لیا جائے
یا ملن کی خواہش کو جاوداں رکھا جائے
یا تو اس کی کھڑکی میں پھول رکھ دیئے جائیں
یا پھر اپنے جیون کو خار کر لیا جائے
یا تو اب دسمبر میں سانس روک لی جائے
یا پھر اس کی یادوں کا سامنا کیا جائے

0
146
اے فضائے شامِ دسمبری مجھے اس قدر نہ ملول کر
کہ میں زندہ دل سا ہوں آدمی کوئی اور سنگ سمیٹ لوں
کوئی لمحہ ایسا ہو خواب سا ترے رنگ آئیں نظر مجھے
تو میں روک کر کسی موڑ پر ترے سارے رنگ سمیٹ لوں
تری شوخیاں ترے حوصلے سبھی آ کے مجھ سے یہ کہہ گئے
میں جو سادہ سادہ سا شخص ہوں ترا انگ انگ سمیٹ لوں

139
مجھ کو وہ شخص اگر آج پکارے، یارو!
میں تو لے آؤں یہاں چاند ستارے، یارو!
ان کو اشعار سناؤ جو مچل سکتے ہوں
سب کے آگے نہ نکالو یہ غبارے ،یارو!
گیسو اپنے وہ سنوارے تو سنوارے لیکن
اپنے لوگوں سے تعلق بھی سنوارے، یارو!

113
ٹپکا ہے ایک سوچ سے قطرہ نوید کا
آیا ہے جب خیال ہمیں روزِ دید کا
مطلب تمہاری دید بھی نشہ ہے مجھ کو دوست
یہ جو تقاضا کر رہا ہوں میں مزید کا
دل کے عوض میں دل تمہیں دے دوں تو کیسے دوں
اتنے میں تو یہ ہے نہیں میری خرید کا

1
171
بنتا ہے میَسیجز پہ بھلا زندگی کا گول؟
ہم سے نہ ہو سکے گا یہاں عاشقی کا رول
اس کو نشہ ہے سستی سیاست کا دوستو
تم اس کا غصہ مت کرو بکتا ہے اَول فَول
اب بھی تمہاری شکل کی کاپی نہیں بنی
ہم نے تو مٹی میں دیئے ہیں اپنے ہاتھ گھول

225
زمین زادو! فلک نژادو! کہاں گئے ہو؟
اگر خبر ہے، تو پھر بتا دو، کہاں گئے ہو؟
تمہارے جانے کے بعد نیندیں اجڑ گئی ہیں
ہمیں تھپک کر کہیں سلا دو ،کہاں گئے ہو؟
یہاں سبھی کے ہی سرپرستوں نے پھول بانٹے
ہمیں بھی رکھنے کو پھول لا دو، کہاں گئے ہو؟

8
190
منظر بدل گیا ہے نظارہ نہیں گیا
یہ دھرتی پھر گئی ہے، ستارہ نہیں گیا
دریا کے ساتھ ساتھ کنارا نہیں گیا
کشتی سے ہم کو پار اتارا نہیں گیا
اک بار آ گیا تو دوبارہ نہیں گیا
مجھ سے وہ بار بار پکارا نہیں گیا

297
ہم سے دیوار کی خواہش بھی مٹائی نہ گئی
تیری تصویر بنائی تو لگائی نہ گئی
میں نے جس دن سے ترے ہاتھ پکڑنا چاہے
میرے کانوں سے زمانے کی دہائی نہ گئی
میں نے سوچا تھا پکاروں نہیں تجھ کو لیکن
تجھ کو دیکھا ہے تو آواز دبائی نہ گئی

148
بیاباں میں شجر کاری کریں گے
ترے دل میں جنوں جاری کریں گے
تجھے دیکھیں گے افسانہ سناتے
زمانے پر غزل طاری کریں گے
ترے گیسو مری خواہش کی آ کر
اچانک سے گرفتاری کریں گے

214
اب قلم کا مشغلہ سبک خیز ہو گیا
یہ ترے فراق میں اور تیز ہو گیا
راہ سے ترے مکان منتقل تو ہو گیا
کیا ہوا اگر شجر کٹ کے میز ہو گیا
ہم نے جان بوجھ کر اپنے دام کم کئے
اتنا ٹارگٹ دیا کہ تجھ سے چیز ہو گیا

131
تمہارے صحن کے کنکربھی اُن کو دانے لگتے ہیں
کہ اِن کو دیکھ کر اکثر پرندے آنے لگتے ہیں
نتیجہ حشر میں نکلے گا، اس شرمائے جانے کا
ذرا سی بات ہوتی ہے تو وہ شرمانے لگتے ہیں
ابھی تک یاد میں کوئی گراموفون بجتا ہے
اسی پر اپنے بچپن کے سہانے گانے لگتے ہیں

92
آنے والی مشکل کم کر دیتی ہے
آیت پڑھ کے مجھ پر دم کر دیتی ہے
فیشن دینے والے اس کو لاتے ہیں
آنچل اوڑھے تو پرچم کر دیتی ہے
تیرے اس کلیے پر سب کو حیرت ہے
کانٹے چھوتی ہے مرہم کر دیتی ہے

125
آپ ہر گز نہیں، آپ کب آتے ہیں؟
میری کھڑکی میں تو ابن_ شب آتے ہیں
اس کے ہر دلعزیزوں کی فہرست میں
بس مجھے چھوڑ کر اور سب آتے ہیں
میں سمجھتا ہوں، آتے ہیں میرے لئے
اور وہ ہیں، کسی کے سبب آتے ہیں

169
ایک پر دوسرا لگا ہوا ہے۔
ہر طرف آئینہ لگا ہوا ہے۔
اے زمیں! تیرے امن چینل پر
جنگ پر تبصرہ لگا ہوا ہے
ایک لڑکی سے بے دھیانی میں۔
گال پر رائتہ لگا ہوا ہے۔

122
تیرے مکھڑے پہ تل اس طرح ثبت ہیں
جیسے ہوں کوئی کومل سے روشن دیے
جن کی اجلی سی لو میں بھٹکتے ہووے
اپنے سپنوں کی پگڈنڈیوں پر چلیں
اپنے منزل کے رستے کو ازبر کریں

158
کوئی بےکار سی فائل نہیں ہیں
سو تیری راہ میں حائل نہیں ہیں
ارے یہ سنگ پھر مرمر کہاں پر
اگر اُس صحن کی ٹائل نہیں ہیں
ہمارے پھول کا یہ معجزہ ہے
کہ ہم بندوق کے قائل نہیں ہیں

160
راہوں میں تیری یاد ہے حائل پڑی ہوئی
اس واسطے یہ جان ہے گھائل پڑی ہوئی
وہ کال لگ رہا ہے کہیں کٹ کٹا گئی
کب کی ہمارے ہاتھ سے ڈائل پڑی ہوئی
ہم نے اٹھایا یاد کا ملبہ گرا ہوا
اس نے اٹھائی پیر کی پائل پڑی ہوئی

2
195
دھڑکن کے آس پاس کی کوئی جگہ بھی دو
تم نے مدد تو بھیج دی لیکن دعا بھی دو
چپ چاپ بیٹھنے سے نکلتا نہیں ہے کام
بیٹھے ہو اس کے در پہ تو اس کو صدا بھی دو
ہے پھول تیرے ہاتھ میں کالر ہے میرے پاس
تم دیکھ تو رہی ہو مگر اب سجا بھی دو

1
136
تڑپ کہ اپنے حال کا سنا لیا تو کیا ہوا
جو ہم نے چھت پہ چاند کو بلا لیا تو کیا ہوا
سڑک کے ساتھ کھل رہا تھا ایک پھول تو اسے
کسی حسین زلف نے سجا لیا تو کیا ہوا
کسی کے غم میں نیند سے بگڑ گئی تو کیا کریں
کسی کے غم کو شان سے منا لیا تو کیا ہوا

137
اصل بات جان لی، شام پر لگا دیا
ہم نے تیری یاد کو، کام پر لگا دیا
مجھکو دیکھنا ہے یہ، کیسے شخص کیلئے
تو نے مجھ فقیر کو، دام پر لگا دیا
ایک قمقمہ تھا دل، اپنے پاس اور پھر
ہم نے وہ بھی آج ایک بام پر لگا دیا

121
یہ سارے شہروں کی سب دیواروں کو ایک کینوس خیال کر کے
میں اس کا چہرہ اتار دوں گا اسے یہ دھڑکا لگا رہے گا
تمہارے کمرے کی بند کھڑکی بھی اس حوالے سے سوچتی ہے
کہ چاند حجرے میں آ گیا تو کئی برس تک پڑا رہے گا
سو اس برس بھی وہ پھول لڑکی بہار رت سے لڑی رہے گی
یہ ہجر زادہ بھی اس کی رہ میں گلاب لے کر کھڑا رہے گا

137
اب یہی سوچ کر ہم ٹھکانہ کریں, کوئی جنگل ہو کچھ ہو کہیں تو رہیں
تو بھی آئے نہ آئے مگر دلنشیں, ہم سے ملنے وہاں چاندنی آئے گی
عکس پڑتا ہے چہرے کا یوں شال پر, مجھ کو لگتا ہے اب کے اسی حال پر
اس کی رنگت جو ڈر کر کبھی بھی اڑی, اس کی چنری میں بھی لازمی آئے گی
آؤ بارش کے موسم میں کھل کر ملیں, آؤ باتیں کریں آؤ کیفے چلیں
یونہی لیٹے رہے اپنے گھر پر پڑے, خاک باتوں میں پھر چاشنی آئے گی

3
145
ہم یوں اس کے بقُول ملتے ہیں
بال بکھرے، ملول ملتے ہیں
ہم کو ملتی نہیں ہے داد ان سے
آپ لوگوں کو پھول ملتے ہیں
یاد کے کیمیائی مادے سے
غم کے مالیکیول ملتے ہیں

170
اب ہم یہ غم کریں تو تمہارا نہیں کریں
اور بس میں پیار ہو تو دوبارا نہیں کریں
آپ آسمانِ شوق پہ تارے زمین سے
دیکھا کریں جناب اتارا نہیں کریں
یہ ہم فقیر لوگ بڑے مخمصے میں ہیں
مائل نہیں ادھر تو اشارا نہیں کریں

110
منظر تمہارے شہر کا دیکھا نہیں گیا
اب تک ہمارے گاؤں کا غصہ نہیں گیا
ہم کو ہمارے عشق سے فرصت نہیں ملی
ہم کو ہمارے کام سے روکا نہیں گیا
اک شام اس کی آنکھ میں دیکھا تھا غور سے
تب کا ہماری آنکھ سے نشہ نہیں گیا

177
کھڑے ہیں ساتھ لگ کے اپنے یار کے مزار سے
نہیں ہے اب خزاں کا ڈر نہیں شغف بہار سے
جو میرا ہاتھ دل پہ ہے تو اسکا ہاتھ آنکھ پر
ہمیں تو لڑنا پڑ رہا ہے عشقِ بے مہار سے
دوبارہ کب اڑیں گے ایک وصل کی اڑان پر
دوبارہ کب نکل سکیں گے ہجر کے مدار سے

8
209
میری آنکھوں میں اترے ہووے کیمرے۔
اس کی تصویر لے۔
ایسی تصویر لے۔
جس میں سارے زمانوں کی رنگت ملے۔
جس کو دیکھے پکاسو تو حیرت سے آنکھیں ملے۔
اور برش پھینک دے۔

97
تجربے بھی کیے سارے پرچے پڑھے کوئی ایسا تعامل نہیں مل سکا
اس کی آنکھوں سے آنکھیں نہیں مل سکیں اس کے دل سے مرا دل نہیں مل سکا.
تو نے جس کو ہواؤں کی زد پر کیا وہ دیا بجھ گیا اس کی چھٹی ہوئی
تو نے جس کو جہاں کے حوالے کیا پھر دوبارہ وہ پاگل نہیں مل سکا
ایک جنگل ہے رستے میں وہ دید کا اور دریا ہے آگے وہاں وصل کا
کوئی ایسا وہ دریا نہیں مل سکا کوئی ایسا وہ جنگل نہیں مل سکا

3
166
جسے گل سے ہے عقیدت ،جسے چاندنی پسند ہے
وہ ہمارے ساتھ مہکے، جسے شاعری پسند ہے
وہاں سب کے پاس دل ہے یا کوئی حسین تل ہے
ترے شہر میں وہ جائے جسے دلبری پسند ہے
یہاں عشق_ بے مروت ، یہاں دید کی ہے قلت
یہاں دشت میں وہ آئے جسے تشنگی پسند ہے

2
145
وصال رت کی حسین شامیں ہمارے گھر میں چمک رہی ہیں۔
جو اس نے مجھ سے کہی ہوئی ہیں وہ پھول باتیں مہک رہی ہیں۔۔
وہ اک مدینہ ہے جس کے ہونے سے سب مدینوں کی رونقیں ہیں
وہ ایک روضہ ہے جس کے حلیے میں کائناتیں دمک رہی ہیں
ہمارے آنگن کی ظلمتوں نے کسی بھی جگنو کا منہ نہ دیکھا۔
تمہارے کمرے میں پھیلنے کو افق سے کرنیں ڈھلک رہی ہیں۔

1
207
آج تو کریں گے ہم واک لیٹ نائٹ سے
چاند نے پہنچنا ہے آخری فلائٹ سے
اس کے ہاتھ کی روٹی چاشنی میں اول ہے
ذائقے چھلکتے ہیں ایک ایک بائٹ سے
یار میں اداسی کی آخری حدوں پر ہوں
مجھ کو شعر بھیجو تم چار پانچ ٹائٹ سے

3
188
حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے۔
ہمیں الّو بنایا جا رہا ہے۔
مری آنکھیں فضیلت پا رہی ہیں۔
ترا حلیہ دکھایا جا رہا ہے۔
عجب ہے جو ہماری دوستی کو۔
بڑا ہٹ کر بتایا جا رہا ہے۔

142
چپکے چپکے اتنا برسو۔
من میں جل تھل ہو جائے۔
صحرا، جنگل ہو جائے۔
چپکے چپکے اتنا برسو
کاسہ چھاگل ہو جائے
پیاسا، پاگل ہو جائے

3
245
تیرے دل میں حقیر ہوتے ہیں
ورنہ ہم تو فقیر ہوتے ہیں
اس کی پھولوں پہ بادشاہت ہے
رنگ اس کے وزیر ہوتے ہیں
دیکھ حالت مرے نصیبوں کی
آڑی ترچھی لکیر ہوتے ہیں

2
206
خوش نصیبی کسی کا بھی مقدر ہو سکتی ہے۔
مثال کے طور پر تمہارا سیل فون
جو تمہاری انگلی کا لمس ملتے ہی دھڑک اٹھتا ہے
اور یہ گرم چائے کا کپ۔
جو دھند میں لپٹی سرد شاموں میں۔
تمہارے ہونٹوں سے لگتے ہی دمک اٹھتا ہے۔

143
شام کے ملجگے اندھیرے میں
تم نے جو اک چراغ بھیجا تھا
اس کی باد صبا کے پہرے میں
ایک جگنو نے دست بوسی کی

173
تو وہ بزدل نہیں
کوئی گھورے تجھے
اور تو چپ رہے
کوئی فقرے کسے
اور کڑھتی رہے
جو بھی گھورے تجھے، اس کو غرا کے تک

201
میں نے دن میں بات کی تو برا منا گئے
رات میرے خواب میں خوب چہچہا گئے
دل کے مرغزار میں کاسنی سے گل کھلے
وہ ہماری بات پر آج مسکرا گئے
عشقِ بے مراد کا اور بہار کا ہمیں
جب رہا نہ کچھ خیال دونوں پاس آ گئے

153
مت پوچھ تیرے بعد، کیا کیا جدا ہوا
یہ سب سے پہلی بات کہ رستہ جدا ہوا
میں نے تو جب سے دیکھا ہے اک مطمئن فقیر
اس دن کا میرے ہاتھ سے کاسہ جدا ہوا،
اس کو جو آج پینے کی فرصت نہیں ملی
کافی اداس، چائے سے نشہ جدا ہوا

135
میری بستی بس رہی ہے کھیتوں کھلیانوں کے بیچ
تم کہاں پر رہ رہے ہو تنگ دالانوں کے بیچ؟
ساغر و مینا کے منہ سے ہم نے یہ جانا فقط
شام سے کچھ چل رہا ہے تیرے مستانوں کے بیچ
ہم کو سورج سے گلہ ہے سب اندھیرے چھوڑ کر
اس نے کرنیں بانٹ دی ہیں اپنے دربانوں کے بیچ

82
کچھ بھی ہو جائے تُو مغرور نہ ہونے دینا
اپنی درگاہ سے مفرور نہ ہونے دینا
اپنی الفت کو بہشتوں سے زیادہ رکھنا
عبد رکھنا مجھے مزدور نہ ہونے دینا
میری عیبوں کی سیاہی کا تُو پردہ رکھنا
میں برا ہوں تو یہ مشہور نہ ہونے دینا

130
رضی اللہ تعالی عنہ
ہماری آنکھ میں یہ نم رہے گا
تمہارا غم ہمارا غم رہے گا
ہمارے ہاتھ میں تیرا علم ہے
ہمارے ساتھ یہ پرچم رہے گا
تری باتیں مہکتی ہی رہیں گی

131
سرکار(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سب سے کہا، مجھے اس سے محبت ہے
اور دن کے نکلنے پر محفل میں علی (رضی اللہ تعالی عنہ) آئے
گر اس کو عطا سمجھو, پھر اس میں جھگڑنا کیا
سو ٹھیک ہے پھر کہنا، مشکل میں علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آئے
لمحے میں نجف پہنچا، روضے کی بلائیں لیں
حیران سا مل آیا، جب دل میں علی(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آئے

262
آتش بجھے گی دل کی ،وہ گلنار دیکھ کر
یہ نار سرد پڑتی ہے وہ نار دیکھ کر
ویسے علاج سستا ہے اس کے مریض کا
قیمت بڑھا رہا ہے وہ بیمار دیکھ کر
نظموں کے ہار کھل گئےلہجے کے وار سے
ہاتھوں سے پھول گر گئے تلوار دیکھ کر

0
126
پھر کسی کی یاد میں آنسو بہانے لگ پڑے
کار میں نصرت فَتح کے گیت گانے لگ پڑے
کینوس پر پھول کی تصویر آدھی رہ گئی
ہم تری دیوار پر تتلی بنانے لگ پڑے
آسمانوں کے نگر میں جب ستارے آ گئے
جو جگہ اچھی لگی پکنک منانے لگ پڑے

0
144
پہلی پہ ہوں یا دس پہ ، محرم میں سوگ ہیں
یہ سال کیسے خوش ہوں کہ بنیاد روگ ہیں
اب دشمنوں کی بھیڑ ہے، جھوٹوں کا زور ہے
اب اپنے آس پاس بھی کوفہ کے لوگ ہیں

151
ہم نے کیا تھا وعدہ یہ چھاؤں میں بیٹھ کر
شہروں کو پیڑ بھیجیں گے گاؤں میں بیٹھ کر
تب تک ملال ہونے کا، ہونے نہیں دیا
جب تک خدا نے پالا ہے ماؤں میں بیٹھ کر
اب خوش نصیب وہ ہے جو تیری پسند ہو
جس کا سفر ہو گا ترے پاؤں میں بیٹھ کر

152
ہم ہجرتوں کے داغ انہی پر سجائیں گے
جو لوگ جان بوجھ کہ بکسے بنائیں گے
ہم کو ہماری بے بسی شب تک سلائے گی
ہم کو تمہارے خواب سحر تک جگائیں گے
گر تو منا کہ ہٹ گیا ہو جیت کی خوشی
ہم تجھ کو اپنی ہار کا قصہ سنائیں گے

0
193
اک چراغ مل گیا روشنی سے اٹ گئے
اسکا ساتھ طے کیا اور اس پہ ڈٹ گئے
سردیوں کی رات میں ایک ہجر سر کیا
تیرا کچھ نہیں گیا میرے پیر کٹ گئے
ہم نے آج چاند کو اس کے روبرو کیا
اور درمیان سے ایک بار ہٹ گئے

0
152
اُڑ کے داد آ گئی ساتویں زمین سے
ہم سے وصل بن گیا, یاد کی مشین سے
ہم کو پیار تھا بہت اپنی آستین سے
اژدہا نِکل پڑا اُس کی چھان بین سے
وہ زمیں گزر گئی، آسمان آ گیا
بات بھی نہیں ہوئی ایک نازنین سے

152
چاند کو خبر ملی اک نئے جہان کی
پھر نہیں سنی گئی اپنے آسمان کی
میں تو پھول سوچ کر اس کے گھر گیا مگر
اس نے بات چھیڑ دی تیر کی کمان کی
ہم کہاں تھے آفتاب؟ ہاں وہ یاد آ گیا،
بات کر رہے تھے تم ایک سائبان کی

113
دیکھتا ہوں میں تجھے اور تو مجھے، بالکل نہیں
کیا یہ ہو سکتا ہے پھر محفل سجے؟ بالکل نہیں
روک رکھا ہے تجھے میرے حریمِ_ ہجر میں
میں یہ کہتا ہوں بھلا بادل چھٹے، بالکل نہیں
تو کسی کی یاد کو کھڈے میں پھینکے اور کہے،
کوئی تیری آگ میں ہر پل جلے، بالکل نہیں

121
ہر گز نہیں کہیں گے وہاں پر کھڑے رہے
مثلِ غبار آپ کے در پر پڑے رہے
مل بھی رہا تھا راج مگر خوش نصیب لوگ
ان کے حسین ساتھ کے اوپر اڑے رہے
قربان جائے آپ کے اصحاب پر زباں
جن پر کہ امتحان بھی اکثر بڑے رہے

2
153
وہی تم ہو وہی ہم ہیں وہی ظالم زمانہ ہے
ہمیں لڑنا ہے رسموں سے محبت کو بچانا ہے
کسی کے دل سے گرتے ہیں تو بربادی مقدر ہے
ہماری یاد کا ملبہ کسی نے کب اٹھانا ہے
انہیں کہنا ہے یہ دیکھو اسے کہتے ہیں رعنائی
ہمیں تیرا حسیں آنچل بہاروں کو دکھانا ہے

339
مٹھی میں چاند آ گیا تارے گلے ملے
اس کو ستارے چاند کیا سارے گلے ملے
اس سے کہو فقیر سے مثبت گماں رکھے
اس سے کہو کہ مجھ کو پکارے گلے ملے
اپنے تئیں تو بزم میں پہچاں نہ مل سکی
بتلایا تیرا نام تو سارے گلے ملے

1
162
موسم پہ اختیار ہے، حیرت کی بات ہے۔
اب تک وہاں بہار ہے، حیرت کی بات ہے۔
اس کو جو مجھ سے پیار ہے، وہ دفعتاً ہے اور
غزلوں پہ استوار ہے، حیرت کی بات ہے
ہم کو نہیں ہے خود پہ بھی لیکن تجھے یہاں۔
لوگوں پہ اعتبار ہے، حیرت کی بات ہے۔

109
اس نے یہ ہم سے بولا ہے آنسو بہانے پر
"دیکھو یہاں پہ فیس ہے ،دکھڑے سنانے پر"
اس کا ہوا نہ برہمی سے ذرہ فائدہ
اور ہم نے آنکھیں دیکھ لیں، آنکھیں دکھانے پر
جو اس پہ ہو تو نیزہ و شمشیر چھوڑ کر
وہ بادشاہ خرید لے گا مسکرانے پر

156
جیسا کہ کوئی جام کے زیرِ اثر رہے
ہم لوگ تیرے نام کے زیرِ اثر رہے
یہ بولتا نہیں ہے مگر چاہتا تو ہے
کے چاند تیرے بام کے زیرِ اثر رہے
جو تیرے ساتھ جاؤں کسی جھیل تک چلوں
تو عمر ایسے گام کے زیرِ اثر رہے

169