اس کی آنکھوں کو اُسے جھیل بتاتا ہوں میں |
وہ سمجھتا ہے کہ ہنستا ہوں، ستاتا ہوں میں |
اس سے زیادہ مرے لفظوں کا نصیبا کیا ہو |
اُس پہ لکھتا ہوں اسے روز سناتا ہوں میں |
تو ہے روپوش تو پھر میں بھی یہیں بیٹھا ہوں |
تو مرے سامنے آ، بھاگ کے آتا ہوں میں |
میری عادت ہے کسی شام کو اکثر بیٹھے |
چاند نکلے تو اُسے ہاتھ ہلاتا ہوں میں |
اس کو لگتا ہے اگر یوں تو غلط لگتا ہے |
گھر نہ لوٹوں تو کسی باغ میں جاتا ہوں میں |
آپ آئے ہیں مجھے ملنے تو آئیں بیٹھیں |
تھا تو مصروف مگر خود کو بلاتا ہوں میں |
اے اداسی تو نے کیا حال کیا ہے خود کا |
لے ادھر بیٹھ ترے بال بناتا ہوں میں |
معلومات