معزز صارفین،
یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔
میرا نام محمد اویس قرنی ہے۔ سخن فہمی کی دنیا میں ابھی نووارد ہوں، مگر دل میں ایک تڑپ ہے کہ کچھ ایسا کہہ سکوں جو دلوں کو چھو جائے۔ میں نہ خود کو شاعر کہنے کا دعویٰ رکھتا ہوں، نہ اپنے کلام کو کمال سمجھتا ہوں۔ بس جذبوں کی شدت کبھی کبھی لفظوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور میں اُسے صفحے پر اُتار دیتا ہوں۔میرے اشعار میں شاید کوئی عظمت نہ ہو، مگر سچائی ضرور ہے۔ میں نے جو دیکھا، جو جھیلا، جو محسوس کیا، اُسے بغیر کسی دعوے کے، نرمی سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ عروض و بحور سیکھنے کا عمل جاری ہے، اور اہلِ علم کی رہنمائی کو سعادت سمجھتا ہوں۔اگر میرے الفاظ کسی کے دل کو چھو جائیں، یا کسی کی کیفیت کو بیان کر سکیں، تو یہی میرے لیے سب سے بڑا انعام ہے۔ میں خود کو سیکھنے والا سمجھتا ہوں، اور سیکھنے کا یہ سفر میرے لیے باعثِ شکر ہے۔
غزہ کی رات خاموش تھی، مگر پُر سکون نہیں۔ ستارے چمک رہے تھے، جیسے وہ ہمیشہ چمکتے تھے گویا انہیں نیچے ہونے والے حادثوں کا علم نہ تھا۔عمارہ صرف 9 سال کی تھی۔ اسے پھولوں اور پرندوں کی ڈرائنگ کرنا بہت پسند تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی سمیع ، 6 سال کا تھا، جو اپنے والد کے بنائے ہوئے پرانے کپڑے اور دھاگے کی پتنگ کو دوڑاتے ہوئے خوش رہتا تھا۔ جب آسمان میں طیاروں کی گونج سنائی دیتی، تب بھی وہ بے خوف دوسرے بچوں کی طرح جینا چاہتے تھے ، جب بھی ممکن ہوتا، کھیل کود کرتے، اور جب ضرورت پڑتی، چھپ جاتے۔ یہ انکھ مچولی کا کھیل برسوں سے جاری تھا۔ ان کا گھر چھوٹا تھا، دراڑوں سے بھرا ہوا ، مگر محبت سے بھرا ہوا ۔ کھانا کم تھا مگر اللہ کا کرم تھا زیادہ تر دن روزے سے گزر جاتے تھے۔ ان کی ماں، ہاجرہ ، انہیں موم بتی کی روشنی میں پڑھاتی بھی تھی اور رات میں کہانیاں بھی سناتی تھی، کیونکہ زیادہ تر راتوں میں بجلی نہیں آتی تھی۔ ان کے والد ان کی روح کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے، کیونکہ گھر اور سڑکیں اب محفوظ نہ تھیں۔اچانک ایک صبح، زور دار آواز نے زمین کو ہلا دیا۔ گرج سے بھی بلند آواز ، بہت قریب۔ان کے گھر کے پاس