معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



329
4317
انٹر نیٹ اک جنگل ہے
اور جنگل میں منگل ہے
میلہ ہے کہیں اور کہیں
جاری سیاسی دنگل ہے

0
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

329
4317
الف لام میم، راز کا پہرہ ہے
حقیقت کے لبوں پہ صبر کا گہرا ہے
یہ حرفِ مقدس، یہ نور کا منظر
جہاں علمِ خدا کا دریا ٹھہرا ہے
کاف ، ہا ،یا،عین ،صاد کلام عشق
دلوں پر یے حرف محبت کا اترا ہے

2
12
دل کی دنیا اجڑ چلی
بجھنے لگی ہے ہر گلی
خاموش ہے یہ چاندنی
دھوکہ دے گئی روشنی
ڈھلنے لگی ہے رات حسن
چھننے لگی ہے ذات حسن

4
چل، سمندر کے پاس چلیں۔
جہاں ساحل کی نرم ریت پر خواب لکھیں،
اور لہروں کی سرگوشیوں میں سکون ڈھونڈیں۔
جہاں ہر لہر ایک کہانی سنائے،
اور ہر جھاگ زندگی کا سبق دے۔
سمندر، جو کبھی پرسکون،

3
چل، دور چلیں۔
کسی ایسے دیس چلیں،
جہاں ہواؤں میں خوشبو بسی ہو،
جہاں صبحیں امید کا سندیسہ لائیں
اور شامیں سکون کی چادر اوڑھائیں۔
چل، وہاں چلیں

0
2
وہ خنجر گھونپ کر کہتا ہے
درد اتنے کون کس کے سہتا ہے
زخم پر مسکراتا ہے یہ جہاں
غم کا منظر خوشی میں رہتا ہے
دھوکہ دے کر وفا کی بات کرے
کیا ایسا پیار کا صلہ دنیا میں ہوتا ہے

3
کفر میری ذات میں شامل ہو نہیں سکتا
محبتِ اہل بیت سے غافل ہو نہیں سکتا
دل میں ہے عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا چراغ
وہ کبھی مدھم ہو،ایسا کبھی ممکن ہو نہیں سکتا
رگوں میں خون حسینی ، عشق کی علامت ہے
یے راز محبت ہے، میں غافل ہو نہیں سکتا

1
7
تغیر کی یہ دنیا ہے کہ میں بھی ہوں مکیں اس کا
یقینی بےیقینی میں بھی رہتا ہے یقیں اس کا
یہ سامانِ سفر اتنا میں باندھوں کس لئے جاناں
کہ کتنا دور جانا ہے بھروسہ کچھ نہیں اس کا
بناؤں کیا سجاؤں کیا یہ مٹی کے بتوں کو میں
تخیل نے ہی رہنا ہے کہ ہو چہرہ حسیں اس کا

1
غزل
ہم محبت میں ہار بیٹھے ہیں
اس لیے اشکبار بیٹھے ہیں
زندگی کس طرح گزاریں گے
لے کے صدمے ہزار بیٹھے ہیں
اب جو گزرے گی زندگی ہوگی

0
5
ہوا جو دل خوش گماں تمہارا
مٹا وہیں سے نشاں تمہارا
خلوص حق ہے اے جانِ جاناں
مگر یہ طرز‌ِِ بیاں تمہارا
جو دل میں تھا وہ زباں پہ آیا
ہوا ہے سینہ عیاں تمہارا

0
5
کافر کھتے ہو، کفر ثابت کریں تو سہی
اگر ہے نفرت، قبول ہے قتل کریں تو سہی
نفرت کی زبان، تمھاری بے بنیاد باتوں کی نہیں
محبت کی راہ دکھاؤ، تاکہ کچھ اور ملے تو سہی
یقین ہو تمہیں، ہم بھی تمہاری راہ میں ہیں
اگر سزا ہے، تو وہ خود کو بہی سزا دیں تو سہی

4
زخم ملے زندگی سے، مقام عشق کی معرفت
دکھ کے یہ لمحے، ہیں دل کی سچی حقیقت
محبت کا راستہ تھا، کانٹوں سے بھرا ہوا
لیکن ہر درد میں چھپے، کچھ رازوں کی حقیقت
ہم نے سیکھا ہے وقت کے سخت لمحات سے
کہ یہ زخم ہی ہیں جو دیتے ہیں دل کو محبت

3
من پسندی من پسندی ایک ایسا پنجرہ ہے جو کہ ہماری ذات میں فطرتاََ موجود ہے۔  ہم سب اپنی ذات میںمن پسندی کے رُجحان کو بڑی احتیاط و تمنّا کے ساتھ سینت سینت کررکھتے ہیں۔  اور اس پنجرے اپنے من پسندوں اپنے من چاہوں کو پرندوں کی طرح قید کرتے ہیں۔ اور اُن سے ہمہ وقت سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ ہماری من پسند بولیاں سیکھیں اور اُن کو اپنی توتلی محبت بھری زبان میں دُھرا کر، ہماری خُوبیوں کے گیت گا گا کر ہمارا دل خُوش کرتے رہیں۔ہمارے من پسند اطوار اپنائیں، جیسا ہم چاہیں ویسا پہنیں ، جو ہم چاہیں کریں،  الغرض جیسے ہمیں پسند ہو بالکل ویسے ہی بنے رہیں۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا کہ ہماراپگلا من کسی ایسے پرندے پر آجاتا ہے جو یہ سب کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جو ہماری’ حسیں توقعات‘ کو چکنا چُور کر دیتا ہے۔ جو ہمیں اپنی سی سُنانا چاہتا ہے، اور اپنی سی کرنا چاہتا ہے۔اُس وقت ہمارے من پسندی کے پنجرے کا انجر پنجر سب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔تب ہمارا من پسندی کا پنجرہ زندانِ نفرت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔یاپھر ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس پرندے کو ہم نے اپنے پنجرے کی زینت بنانا چاہا اُس کے بال و پر ہماری توقع سےکہیں بڑھ کر

1
121
جن سے ٹوٹے ہوئے دل پل میں ملائے جائیں
درس گاہوں میں وہ اسباق پڑھائے جائیں
جن سے ماں باپ کی عظمت کا چلن بڑھتا ہو
میرے بچوں کو وہ آداب سکھائے جائیں
جس میں ہو ووٹ کی حرمت کا سبق لکھا ہوا
قوم کو میری وہ ابواب رٹائے جائیں

1
13
کچا مکان اور بارش، یہ ایک خواب ہے
دھوپوں کے بیچ سایہ بھی اب سراب ہے
چھت ٹوٹتی ہے، دیوار میں دراڑ ہے
ہر سمت صرف گردشِ وقت و عذاب ہے
قطرے بھی چیخ چیخ کے قصے سنائیں اب
بارش کے ساتھ غم کا بھی اک نصاب ہے

5
یاد آئے تو آئے قیا مت کیوں ہے
زندگی غم سےتجھ کو شکایت کیوں ہے
آشیاں چھوڑ کر گر کوئی خوش ہے تو
دل تجھےجانےوالےسےرفاقت کیوں ہے
جلتی ہے شمع پروانہ سے ملنے کو
جانے! پروانہ کوپھربغاوت کیوں ہے

9
عام کو خاص لکھ رہا ہوں میں
اپنا اتہاس لکھ رہا ہوں میں
لکھ رہا ہوں وجود کا قصہ
یعنی بکواس لکھ رہا ہوں میں
ہے سیاہی سے سارا کاغذ تر
قصۂ یاس لکھ رہا ہوں میں

17
ملا نہیں تو کیا ہوا، نقش تو جما گیا
حیات کے فسانے میں رنگ بھر گیا
ہزار خواب تھے ادھورے، سبھی سنور گئے
وہ ایک پل کو آ کے بھی دل کو ہلا گیا
کسی نگاہ کا جادو، کسی کا لمس نرم
سبھی فضا کو چھو کے جیسے گیت گا گیا

4
 عروض ویب سائٹ لنکس:سائٹ پر کلام کے بحور کی فہرستدیوانِ غالبآسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں (بیس اسباق)سائٹ اور شاعری پر مضامینالف کا ایصال - میر تقی میر کی مثاللغت میں غلط الفاظ کی نشاندہی یا نئے الفاظ کو شامل کریںلغات/فرہنگ:لغت کبیراملا نامہ فرہنگ آصفیہ مکمل (پی ڈی ایف 84 میگابائٹ)فیروز اللغات (پی ڈی ایف 53 میگابائٹ)بیرونی لنکس:فرہنگ قافیہA Desertful of Roses- Urdu Ghazals of Mirza Ghalibعلم عروض وڈیو اسباق - بھٹنا گر شادابؔ

44
3791