معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



395
5701
ہے ہَر سَرکار کی خواہِش، ہے ہَر دَربار کی خواہِش
کہ ہَم جیسے زَمِیں زادے سُوئے مَہتاب نَہ دیکھیں
ہَمارے چاہنے سے مانتے ہیں کُچھ نَہِیں ہونا
پَہ اِس کا یِہ بھی تو مَطْلَب نَہِیں ہَم خواب نَہ دیکھیں
(مرزا رضی اُلرّحمان)

0
بابِ جود و سخا رنگِ مہر و وفا جانشینی کا جب مرتبہ مل گیا
جو بھی آیا وہاں در پہ روتا ہوا چین اپنا بھی تج کر سہارا دیا
روئے تاباں حسیں مثلِ روشن سحر حسن جس کا نکھرتا رہا ہر گھڑی
گفتگو جیسے موتی پرو دے کوئی لہجہ ایسا کہ چشمہ بہا شہد کا
ہاں قلندر صفت خانوادہ تھے وہ بے نیازی فدا ان پہ ہر آن تھی
پھر بھی عادت مبارک تھی کیسی یہاں در سے خالی نہ کوئی بھی سائل گیا

0
4
چن پھول نشاط کے کلیوں سے رنگِ شباب سجاتے ہیں
چھڑتا ہے نغمہ بادِ صبا سے ہوا کے تار گلاب کھلاتے ہیں
خالق کا جب بھی سوچا ہے، حیرت میں ڈوبے جاتا ہوں
ہم دل والے ہمنوا اکثر اُس کو خطاب دلاتے ہیں
تیری جھکی سی نظریں اور کھلی سی کھلی یہ بانہیں بھی
حوصلہ دیتی ہیں یا میرے دل کو خراب بناتے ہیں

0
2
ہے دائمی یہ جوانی نہ زندگانی ہے
بہار گر ہے چمن میں خزاں بھی آنی ہے
۔
ڈھکی چھپی سی ہو بات اور نہ کھل کے کرو
بھلی ہے بات وہی جو کہ درمیانی ہے
۔

0
6
سب سے عالی ہے شانِ محمد ان کا کوئی بھی ہمسر نہیں ہے
عرش پہنچا ہو ان کے علاوہ ایسا کوئی پیمبر نہیں ہے
یوں تو اصحاب سب محترم ہیں جن میں عباس سا ذی حشم ہیں
پر فضیلت میں بو بکر ہیں بس کوئی ان کے برابر نہیں ہے
گود میں تیرے محبوب اکبر دودھ ان کو پلانا میسر
اے حلیمہ جہاں بھر میں تجھ سا اور کسی کا مقدر نہیں ہے

0
7
مرے دل پہ مجھ کو یارب اگر اختیار ہوتا
نہ تڑپ سی دل میں ہوتی نہ میں بے قرار ہوتا
جو اتر رہا ہے میری رگِ جان میں مسلسل
اُسی کرب کا تقاضا ہے وصالِ یار ہوتا
نہ تو جی کے موت آتی نہ تو مر کے زندہ ہوتے
کہ سراپا خاک ہوتے، نہ یہ حالِ زار ہوتا

0
3
42
ہر ظلم مسکرا کر تیرا سہا کریں ہم
آہوں کی بھی نہ لب سے کوئی صدا کریں ہم
۔
تم کو جفا ہی آئے سو تم جفا کرے ہو
ہم کو وفا ہی آئے سو بس وفا کریں ہم
۔

0
7
نِجکاری یا فَن کاری؟؟؟
——
بیچنے پَر آئیں تو پِھر اَنْ ہونے دَاموں بیچتے ہیں
قَد آوَر مَنصُوبے بھی یِہ بَوْنے دَاموں بیچتے ہیں
پہلے خُود ہی کر دیتے ہیں خَسْتَہ حال اِداروں کا
بَعْد ازَاں پِھر اُن کو اَونے پَونے دَاموں بیچتے ہیں

0
4
آیا جو ہاتھ داماں آقا کریم کا
مومن پہ یہ کرم ہے ربِ رحیم کا
جس سے عنایتیں ہیں اکنافِ دہر تک
مہماں بنا وہ داتا عرشِ عظیم کا
منظر جہان کے سب اُن کے لئے سجھے
یہ فیصلہ ہے آخر عقلِ سلیم کا

3
19
نہ کوئی وَصف، نہ گُر، نہ فُسوں کام آیا
تِرے رَستے میں مَگر، یہ جُنوں کام آیا

0
9
یہ ستمگروں کا ہے مے کدہ، میں بتاؤں کس کا ستم تجھے؟
یہ تو ظالموں کا ہے مے کدہ، میں سناؤں کتنا الم تجھے؟
میری دل خراش ہے داستاں، جو گھڑی گھڑی کی ہے امتحاں
کبھی سن کے رو دیا بے زباں، میں سناؤں کتنا یہ غم تجھے؟
یہاں باطلوں کا مکان ہے، یہاں فاسدوں کا زمان ہے
یہاں ظالموں کی کمان ہے، میں بتاؤں کس کا علم تجھے؟

21
سنتے سناتے غیر کی بابت چلے گئے
لو قصّہ خوانِ بارِ رفاقت چلے گئے
​احساسِ جرم ہی سے ہو تسکینِ میزباں
مہمان پیشِ وقتِ مدارت چلے گئے
​جاں بھی گئی کہ بچ گئی کرتے ملال کیا
صد شکر جانِ وجہِ ملامت چلے گئے

0
55
یہاں پر تبصرے میں آپ ایسے الفاظ کی نشاندہی کر سکتے ہیں جن کی تقطیع آپ کے خیال میں سسٹم غلط دکھاتا ہے۔ نیز ایسے الفاظ بھی آپ یہاں پر لکھ سکتے ہیں جو کہ سسٹم  میں سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ اس طرح الفاظ کو رپورٹ کرنے سے ہم ان کو سسٹم میں داخل کر سکیں گے اور تقطیع کا نظام باقی صارفین کے لئے بھی بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا۔ بہت شکریہ :)

188
7556
مثلِ رنگِ سحر روئے تاباں حسیں حسن جس کا نکھرتا رہا ہر گھڑی
گفتگو جیسے موتی پرو دے کوئی لہجہ ایسا کہ چشمہ بہا شہد سا
اک ادا تھی نرالی الگ ہی رہی بات کرنے کی جیسے جھڑی پھول کی
جیسے اندر اترتی ہوئی سی نگہ اور ہونٹوں پہ لپکا وہ مسکان کا
گہرے رازوں سے پردہ ہٹانا مگر اتنی آسان کب تھی طریقت کی راہ
لطف ان کا نمایاں ہوا اس قدر سادہ لفظوں میں ہی سب کو سمجھا دیا

0
6
نہ سمجھ کہ کوئی میرا یہاں آسرا نہیں ہے
نہ یوں زعم ناخدا کر مرا کیا خدا نہیں ہے
غمِ عشق کا تسلسل کوئی سلسلہ نہیں ہے
کوئی ابتدا نہیں ہے کوئی انتہا نہیں ہے
ہے سماعتوں میں ہلچل پہ کوئی صدا نہیں ہے
بڑی تیز بارشیں ہیں پہ کوئی گھٹا نہیں ہے

0
11
سلطانِ دو جہان ہیں قدرت کے راز داں
قطرہ ہے جن کے بحر سے ہستی کے کل جہاں
آفاق سارے بُلبلہ اُن کے محیط میں
کونین اُن کے واسطے اُن سے سجے مکاں
اعیانِ ثابتہ میں جو تصویرِ خلق تھی
نورِ جمالِ جاں سے ہے وہ کارواں رواں

1
7
یہ دل ہے مضطرب اس کی اماں صدیقِ اکبر ہیں
سیاہی دور ہو جس سے سماں صدیقِ اکبر ہیں
خلیل اپنا اگر پوچھیں کسے چنتے صحابہ میں
جوابِ حق یہی آتا کہ ہاں صدیقِ اکبر ہیں
بیاں ہو کس طرح کھل کر کسی سے شانِ صدیقی
خدا کے مصطفیٰ کو ارمغاں صدیق اکبر ہیں

0
4
دنیا میں دھاک بیٹھی خدا کے پیام کی
حیرت میں پڑ گئی ہے فصاحت تمام کی
اُس وقت تو عرب میں فصاحت کا دور تھا
یہ بھی تھی وجہ ان کے اک اوجِ مقام کی
نازِ سخن میں سب کو سمجھتے حقیر تھے
پختہ زباں وہاں جو تھی سادہ عوام کی

0
5
سجی ہوئی ہیں یوں محفلیں تو مگر وہ رنگِ طرب کہاں ہے
رہی نہ دنیا بھی اب وہ دنیا زمین وہ ہے نہ آسماں ہے
بہت ہیں یوں تو حسین چہرے نظر میں لیکن نظر دھواں ہے
بس اک خلا سا ہے چاروں جانب نہ چاند تارے نہ کہکشاں ہے
کہوں تو کس سے میں رازِ ہستی قدم قدم پر کہ چیستاں ہے
خود اپنے قالب میں جان اپنی کبھی خفی ہے کبھی عیاں ہے

0
6
بڑی ہے مختصر میری کہانی
کہ میرے دل پہ حاکم تھی کوئی رانی
جوانی کا الگ سا روگ تھی وہ
کہ سترہ سالہ کچی عمر کی پکی محبت کا
کوئی گہرا کوئی تکلیف دہ سا زخم تھی وہ
گئی یوں چھوڑ کر اک دن کہ اب تو

14
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

395
5701
السلام علیکم ، اللہ کرے سب بخیر و عافیت ہوں۔سورۃ الفاتحہ کا منظوم ترجمہ مطلوب ہے۔

0
3
58