معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



380
5440
کیسے شکاری بے عسکر اندر سے بیمار نکلے۔
لشکر بنے کیسے برسر پیکار سالار نکلے۔
بن سج سنور کر حسن نکھرا کوئی معیار نکلے۔
اب ہم خطا کار تھے لیکن تم سزا وار نکلے۔
مسجد کلیسا میں مندر میں پھر خدا ڈھونڈا لیکن۔
کب ڈھونڈ سکے خدا ہر جا پر سے خود دار نکلے۔

0
پھر پھول کھل آئے ہیں ہر سو خوشبو آئی ہوئی ہے۔
سبزہ ہے ہر رنگ پھیلا ہے گل حنائی ہوئی ہے۔
شادابی آئی خزاں گزری تازگی چھا گئی ہے۔
پنچھی پڑے قیدی کھل کر کیسی رہائی ہوئی ہے۔
اب اک چمک آئی دیکھو رت پھر ابھر آئی لیکن۔
بدلا نیا ہے کمک انگڑائی نے لائی ہوئی ہے۔

0
مے مفت میں مل جائے تو سب حلال ہے قاضی۔
لے اچھا شربت ہے ذائقہ کمال ہے قاضی۔
تو جیسا کچھ تم کرتے رہے ہو اس ماضی میں۔
یہ قصہ چھوڑ دو تیرا کیا خیال ہے قاضی۔
کی توبہ توبہ سے توبہ سو بار ایسی یہ توبہ۔
نہ چھیڑو رودادِ دل بے حد ملال ہے قاضی۔

0
اے عشق نہیں ممکن، اب لوٹ کے گھر جانا
تقدیر کے ہاتھوں سے، ہر زخم کا بھر جانا
دنیا کے سفر میں ہم کب کیسے سکوں پائیں
اچھا ہے کہ بس جاؤ، یا دل سے گزر جانا
کب درد کا حاصل ہے، اشکوں کا بہا دینا
تم صبر کا گہنا لو، یا غم میں ٹھہر جانا

0
2
وہ جہاں جلتے ہیں جبریل کے پَر عین وہیں پر
اک تَحَیُّرکے سوا کچھ نہ ملا عرش بریں پر
شَبِ معراج وہاں حضرتِ جبریل نہ پہنچے
ہے کوئی جانے وہاں گزری ہے کیا چشم حزیں پر
جو تصور بھی کرے کوئی تو کیا حضرتِ شہ کا
حال حیرت کدہ سدرہ میں ہوا ماہ مبیں پر

0
3
کب تک ریت نچوڑیں گے
آنکھیں اپنی پھوڑیں گے
ٹیڑھے میڑھے رستے ہیں
پاؤں کتنا موڑیں گے
پلکوں پر تو آنے دیں
تارے ہم بھی توڑیں کے

0
5
یہ ہونا بھی ہونا ہے
شب بھر رونا دھونا ہے
چادر وادر رہنے دے
خود کو اوڑھ کے سونا ہے
سوچ کہاں چھپ جاؤ گے
دیکھ رہا ہر کونا ہے

0
2
مجھ کو تجھ سے تو اجتناب نہیں
میں مگر خود کو دستیاب نہیں
مل بھی جائے جو خواہشوں کا چمن
وقت کی شاخ پر شباب نہیں
وہی رکھے گا فصلِ گُل سے بیر
جس کے آنگن میں اک گلاب نہیں

0
4
تُو بھی پریشاں میں بھی پریشاں
چل چلتے ہیں خوابوں کے پرستاں
کیونکر جلیں نارِ زیست میں ہم
کچھ بھی نہیں جب تیرا مرا یاں

0
2
بے آب دھرتی پہ بلکی خلق خدا کی ہے۔
جو سانس اکھڑی حالت یہ ناروا کی ہے۔
یہ حلق اپنا سوکھے سبھی بے دم پڑے ہیں۔
جو جھلسی سانس تپش بھٹکی یوں ہوا کی ہے۔
یہ گرمی جلائے تپ رہا ہے صحرا بھی۔
ہوا جو شدت لائی ہے کربلا کی ہے۔

0
4
آنکھیں ہیں تیری یار زُمُرُّد سے بھی حسیں
چہرے پہ تیرے چھائی نزاکت گلاب کی
ہو جاہیں پارسا نہ گُنَہْگَاْرْ سب کہیں
کھل جائیں جس پلک سبھی گرہیں نقاب کی

9
یہاں جو معتبر ہے وہ گنوایا جا رہا ہے
فقط معمولی چیزوں کو بچایا جا ریا ہے

0
4
حسن کی شمع شبِ وصل جلائی اس نے
برق جلووں کی مرے دل پہ گرائی اس نے
مہندی ہاتھوں پہ محبت کی رچائی اس نے
رنگینئِ حسن گلالوں سے بڑھائی اس نے
حسن مستور کی دے کر رو نمائی اس نے
بھر دیا دید کا کاسہ ءِ گدائی اس نے

0
3
اللہ کے دین کا سلسلہ ایک ہے
انبیاء ہیں بہت پر خدا ایک ہے
ایک ہی پیڑ ہے باغِ توحید میں
ڈالیاں ہیں بہت پر تنا ایک ہے

0
2
فروزاں ہے دہر سارا کھلا ہر بابِ رحمت ہے
نبی آئے نبی آئے دلوں کی تیز حرکت ہے
خوشی کا ساماں ہر جا ہے بجے ڈنکے مسرت کے
سخی آئے نبی سرور ملا پیغامِ نصرت ہے
خدا کی مہربانی سے ملے ہم کو حسیں داتا
یہ رحمت عالمیں کی ہیں خدا کی جو عنایت ہے

0
2
کچھ ایسے واقفِ اسرار و رازداں بھی ہیں
کہ جن کی کف پہ زمین اور آسماں بھی ہیں
۔
بلند اتنی ہے پرواز تیری اے مومن
کہ لامکاں پہ قدم کے ترے نشاں بھی ہیں
۔

0
11
میرا نام محمد اویس قرنی ہے۔ سخن فہمی کی دنیا میں ابھی نووارد ہوں، مگر دل میں ایک تڑپ ہے کہ کچھ ایسا کہہ سکوں جو دلوں کو چھو جائے۔ میں نہ خود کو شاعر کہنے کا دعویٰ رکھتا ہوں، نہ اپنے کلام کو کمال سمجھتا ہوں۔ بس جذبوں کی شدت کبھی کبھی لفظوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور میں اُسے صفحے پر اُتار دیتا ہوں۔میرے اشعار میں شاید کوئی عظمت نہ ہو، مگر سچائی ضرور ہے۔ میں نے جو دیکھا، جو جھیلا، جو محسوس کیا، اُسے بغیر کسی دعوے کے، نرمی سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ عروض و بحور سیکھنے کا عمل جاری ہے، اور اہلِ علم کی رہنمائی کو سعادت سمجھتا ہوں۔اگر میرے الفاظ کسی کے دل کو چھو جائیں، یا کسی کی کیفیت کو بیان کر سکیں، تو یہی میرے لیے سب سے بڑا انعام ہے۔ میں خود کو سیکھنے والا سمجھتا ہوں، اور سیکھنے کا یہ سفر میرے لیے باعثِ شکر ہے۔

0
1
20

0
1
29
غزہ کی  رات خاموش تھی، مگر پُر سکون نہیں۔ ستارے چمک رہے تھے، جیسے  وہ ہمیشہ چمکتے تھے  گویا انہیں نیچے ہونے والے حادثوں کا علم نہ تھا۔عمارہ صرف 9 سال کی تھی۔ اسے پھولوں اور پرندوں کی ڈرائنگ کرنا بہت پسند تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی سمیع ، 6 سال کا تھا، جو اپنے والد کے بنائے ہوئے پرانے کپڑے اور دھاگے کی پتنگ کو دوڑاتے ہوئے خوش رہتا تھا۔ جب آسمان میں طیاروں کی گونج سنائی دیتی، تب بھی وہ بے خوف دوسرے بچوں کی طرح جینا چاہتے تھے ، جب بھی ممکن ہوتا، کھیل کود  کرتے، اور جب ضرورت پڑتی، چھپ جاتے۔ یہ انکھ مچولی کا کھیل برسوں سے جاری تھا۔ ان کا گھر چھوٹا تھا، دراڑوں سے بھرا ہوا ، مگر محبت سے بھرا ہوا ۔ کھانا کم تھا مگر اللہ کا کرم تھا زیادہ تر دن روزے سے گزر جاتے تھے۔ ان کی ماں، ہاجرہ ، انہیں موم بتی کی روشنی میں پڑھاتی بھی تھی اور رات میں کہانیاں بھی  سناتی تھی، کیونکہ زیادہ تر راتوں میں بجلی نہیں آتی تھی۔ ان کے والد ان کی روح کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے، کیونکہ گھر اور سڑکیں اب محفوظ نہ تھیں۔اچانک ایک صبح،  زور دار آواز نے زمین کو ہلا دیا۔ گرج سے بھی بلند آواز ، بہت قریب۔ان کے گھر کے پاس

15