معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



370
5166
چاندنی نزدیک ہوتی جا رہی ہے
رات بھی تاریک ہوتی جا رہی ہے
میں تو حیراں ہو بھلا دینے کی میری
کیسے عادت ٹھیک ہوتی جا رہی ہے
لوگ ملتے ہیں بچھڑنے کے لیے بس
عشق کی تضحیک ہوتی جا رہی ہے

0
1
ہوئے آزردہ ،حزیں ، قافلۂ چرخ نشیں
مضطرب اخترِ شب ، محوِ فغاں ماہِ مبیں
اشک آباد ہوا کارگہِ نیلوفریں
دیکھ کر رنگِ فلک کہنے لگے اوج مکیں
تیرہ و تار ہے دنیا تہِ خورشیدِ جہاں
منتظر شامِ ستم جس کی ہے وہ صبح کہاں

1
5
کلمۂ حق ادا ہو، صدا چاہیے
اب تو لازم جہادی فضا چاہیے
غزوۂ ہند کا لگتا آغاز ہے
ہے بشارت نبی، اور کیا چاہیے
کفر لرزاں ہے سچ کی صدا سن کے جب
دل میں اخلاص ہو، حوصلہ چاہیے

0
1
دلِ عشاق پُر فگار ہوئے
شوقِ دیدِ صنم میں خوار ہوئے
چشمِ جاناں کے ایسے وار ہوئے
بار بار ان کے ہم شکار ہوئے
بے حجاب اک جھلک صنم کی دیکھ
پارۂ دل کئی ہزار ہوئے

0
4
دل و جگر کو چلو داغدار کرتے ہیں
ہم آج ذکرِ رخ و زلفِ یار کرتے ہیں
سیاہ زلفِ صنم، نازک از کلی ہیں لب
نقوشِ جاناں پہ ہم جاں نثار کرتے ہیں
کمال تیر فگن ہیں صنم ترے دو نین
ہدف بنا کے جگر، آر پار کرتے ہیں

0
3
کوئی دن اس شہرِ ستم میں گزار کے دیکھ
خوں ہی خوں ہے، اب کے رنگ بہار کے دیکھ

0
4
مداح ہیں یا مصطفیٰ کونین تمھارے
ہیں عرشِ سے بالا شہا نعلین تمھارے
تکتے ہیں ارم، لوح و قلم بیٹھے زمیں پر
رکھتے بصر ایسی شہا دو نین تمھارے
تم نعمتِ وھاب کے ہو یا نبی قاسم
سلطاں گدا ہیں اے شہِ دارین تمھارے

0
5
تم بھی جیت گئے
ہم بھی جیت گئے
ہارا کون یہ بعد میں سوچیں گے
تم بھی جشن مناؤ
ہم بھی جشن منائیں
کس کے گھر ماتم ہے یہ بعد میں سوچیں گے

0
15
فاقوں پہ فاقے کر لئے شکوہ نہیں کیا
جیسا کسی نے کہہ دیا ویسا یقیں کیا
اے واعظِ حضور مری ہر خطا معاف
جو بھی کیا ہے آپ نے وہ دلنشیں کیا
تیری نگاہِ ناز سے خطرہ نہیں مجھے
میرے خیال سے تجھے بڑھکر حسیں کیا

0
5
غزوہِ ہند جاری رہے گا
ہند سے کفر کے خاتمے تک
جنگِِ آزادی جاری رہے گی
ہند سے جبر کے خاتمے تک

0
2
سینے میں جلے تھے خواب کئی
ماتم کی صدا تھی، رات بھری
وہ جسم پڑے تھے مقتل میں
اور جشن ہوا
چل ہاتھ ملا
توپوں کی صدا میں مر گئے گل

0
6
زیست ہو گی اک تماشا یہ تو سوچا ہی نہ تھا
کوئی نہ دے گا دلاسا یہ تو سوچا ہی نہ تھا
ہم بھی تھے سب کی نگاہوں کا بنے مرکز کبھی
ہر اک بنے گا یُوں بیگانہ یہ تو سوچا ہی نہ تھا
صد محبت سے بسایا تھا جسے دل میں کبھی
وہ بھی یُوں ہو گا پرایا یہ تو سوچا ہی نہ تھا

0
3
میں سو نہیں پا رہا ہوں مجھے اتنا یاد نہ کر
میں پہلے سے برباد ہوں اور برباد نہ کر
جب شوق تھے اڑنے کے تب دیتا رہائی تو
اب کیا ہی فائدہ اب مجھ کو آزاد نہ کر

75
جھوٹ گھڑتے ہو کچھ ایسے کہ دکھا بھی نہ سکو
زخم کھاتے ہو کچھ ایسے کہ چھپا بھی نہ سکو
لوگ کہتے ہیں کہ آتش زنی ہے شیوہ ترا
آگ بھڑکائی ہے کیوں جس کو بجھا بھی نہ سکو
بھول جانا تری عادت ہے مگر یاد رہے
گھاؤ لگ جائیں گے ایسے کہ بھلا بھی نہ سکو

0
2
مسحور ہو گیا ہوں اک قاتل نگاہ کا
ہنستا ہوں اپنے آپ پر رُتبہ ہے شاہ کا
خوابوں میں ہے وجود اسی مہر و ماہ کا
اب انتظار کون کرے سال و ماہ کا
بیٹھی ہے انتظار میں بیٹی غریب کی
پر کون ہے جو خرچ اٹھائے بیاہ کا

0
2
تھے کہیں بھی مگر اِدھر آئے
اپنے مالک کی راہ پر آئے
مغفرت کا نزول ہوتا ہے
عاجزی لے کے چشمِ تر آئے
پھر بھی دکھتا ہے ضعفِ چشمی میں
حق جو قسمت سے ہی نظر آئے

0
14