معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



323
4243
وَارِث شَاہ نے اِیہہ سِی لِکھیا
حَسُّو پِیر اے سَارے تیلِیاں دا
دِل وچ عِشق دے ڈِیوے بالے
حَسُّو وِیر اے رَب دے بیلِیاں دا

0
6
دیار غیر میں یوں بر سر پیکار ہے زینب
ترے آگے ستم کا ہر ہنر بیکار ہے زینب
سنا ہے شام میں کچھ اس طرح بیدار ہے زینب
کہ اب سونا یزید نحس کا دشوار ہے زینب
زمینوں پر زمانوں پر زمانے کی ہر اک شئ پر
تری سرکار ہے زینب تری سرکار ہے زینب

0
پہچان ہے پھولوں کی تو خوشبو کی بدولت
اپنی بھی شناسائی ہے اردو کے بدولت
یہ میر یہ غالب تو ترقی کا سبب ہیں
اردو تو ملی ہے ہمیں خسرو کی بدولت
منسوب نہیں ہے کسی مسلک سے یہ ہرگز
ہے اردو ادب مسلم و ہندو کی بدولت

0
ہم سفر کوئی ہوتا جو اپنا کبھی
میرے دل کا مقدّر سنبھلتا کبھی
وہ جو بچھڑے تو ہر پل اداسی رہی
یاد کا غم دلوں میں مچلتا کبھی
خواب ٹوٹے تو آنکھوں سے ساگر بہے
کاش اشکوں کا دریا نہ بہتا کبھی

0
18
غزل
کچھ دنوں سے رویا نہیں ہوں میں
مشکلوں میں گویا نہیں ہوں میں
آرزو رہی آرزو نہ ہو
کشمکش میں سویا نہیں ہوں میں
عقل کا تقاضا یہی تھا بس

0
2
میں خفاہوں خود مری ذات سے مجھے تجھ سے کچھ بھی گلہ نہیں
مرے قد سے اونچے کو میں نے چاہ لیا جو مجھ کو ملا نہیں
اسے چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ اٹھاۓ رب کے حضور میں
اسے آس میرے حصول کی مگر اس کے لب پہ دعا نہیں
میں تھا محو خواب وہ آیا اور مرے دل سے لگ کے مجھےکہا
مری روح کو نہ عزیز ہوں تری ایسی کوئی ادا نہیں

0
4
65
اک رنج ہے مسلسل دردوں کا سلسلہ ہے
پھر بھی میں جی رہا ہوں یہ میرا حوصلہ ہے
دنیا بھی جیت لی تو کیا تیر مارا اے دل
سر اس کو کر نہ پایا مجھ کو تو یہ گلہ ہے
کچھ مت کہو اے یارو اس بے کسی کے بت کو
خانہ خراب ہے جو یہ عشق کا صلہ ہے

0
3
تم سے ملنا کبھی اتنا بھی تو دشوار نہ تھا
جیسا اب ہوں کبھی اتنا بھی تو بیمار نہ تھا
خود پہ طاری ہے کیا ہم نے جفاؤں کو تری
ایسا مہلک تو کبھی بھی یہ ترا وار نہ تھا
میرا جینا بھی مجھے ایسے لگے جینا نہیں
زندگی سے کبھی ایسے بھی تو دوچار نہ تھا

0
2
بس دِن گزارتا ہوں میں اِس اجنبی کے ساتھ،
رشتہ نہیں ہے کوئی مرا زندگی کے ساتھ۔
میں روشنی کے سنگ نہیں، چل سکا کبھی،
چلتا ہے جس یقین سے وہ تیرگی کے ساتھ۔
احوال ایک دوجے سے ہم کیسے پوچھتے،
میں بھی کسی کے ساتھ تھا،وہ بھی کسی کے ساتھ۔

5
من کی سونی چوکھٹ پر جب دل نے اُس کی گونج سنی
بیتی رتوں کی سرگم سے پھر کِھل اٹھی ہے دل کی کلی
کتنے پرندے لوٹ گئے ہیں شام کے نیلے سائے میں
کچھ تو اُجالوں سے روٹھے کچھ چاندنی لے کر بھاگ گئی
مہکی مہکی یادیں آئیں دل کے ویراں آنگن میں
دور کہیں کوئی ساز بجا اور گہرے درد کی ٹھیس اٹھی

7
142
یہ گمان ہے کہ اذان ہے مجھے دے نوا مرے اجنبی
کہ یہ وہم ہے شبِ دید کا مجھے یہ بتا مرے اجنبی
تری یاد کا جو عذاب ہے یہ دوام ہے یا قیام ہے
جو دوام ہے تو اجاڑ دے مجھے کر فنا مرے اجنبی
نہ وہ اختلاط کا نور ہے نہ وہ انبساط کی روشنی
اُسے کس طرح سے مناؤں میں جو نہیں خفا مرے اجنبی

0
4
اک دوجے پر جاں وارنے کو ہیں ہم
پھر بھی مگر مزاج نہیں ملتے

0
1
نئی غزل
مجھے تیری محبت کی ضرورت ہے قسم لے لو
شرافت کی نزاکت کی تو مورت ہے قسم لے لو
میں تیرا ہوں تری چاہت مجھے مجبور کرتی ہے
مری آنکھوں میں تیری ایک صورت ہے قسم لے لو
تری چاہت مرے دل میں بغاوت ہے روایت سے

0
4
عجیب خبریں سنا رہے ہیں
ہمیں یہ اُلو بنا رہے ہیں
یہ سوچ قائم رہے گی کیسے
پرندے بے پر اُڑا رہے ہیں
وہی عدو ہیں تیری نظر میں
کبھی جو تیری دُعا رہے ہیں

2
78
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

323
4243
بعض اوقات شاعر الف کا ایصال پچھلے لفظ کیساتھ ایسے کرتے ہیں کہ   پچھلے لفظ کے آخری حرف کی آواز الف میں ضم ہو جاتی ہے۔

24
4216