معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



380
5422
درد سہہ کر سنبھل رہا ہوں میں
اب مکمل بدل رہا ہوں میں
لوگ رستے میں چھوڑ آئے تھے
پھر بھی آگے نکل رہا ہوں میں
میرا جس سمت بھی رہا سایہ
بس مخالف ہی چل رہا ہوں میں

4
رشتوں کے بہروپ بدلتے ہیں
دکھ نئے سانچے میں ڈھلتے ہیں
اس کے سب الفاظ کھلونے ہیں
ان سے ہم دن رات بہلتے ہیں
پہلے دل سے گیت نکلتے تھے
اب تو بس ارمان نکلتے ہیں

0
3
جان میری ہے فدا امہات المومنین
پاک دامن باحیا امہات المومنین
رحمتوں کی ہیں فضا امہات المومنین
علم و حکمت کی ضیا امہات المومنین
رحمتِ حق سے ملی جن کو اعزازی حیات
فضلِ ربی کی عطا امہات المومنین

0
1
ان ظلمتوں سے چھپ کر ہم آبسے جہاں
اب اس مکانِ دل کا خانہ ہوا خراب

0
2
ہے زینتِ دونوں سریٰ جلوہ جمالِ یار کا
حسنِ جہاں سے ما ورا یہ روپ ہے سرکار کا
آساں کرے جو کبریا وہ سلسلہ ہے یاد کا
جو راحتِ جاں یوں بنا وہ نام ہے دلدار کا
تھیں آرزو میں راحتیں چاحت بنی اب ولولہ
ہر فیض لطفِ یار میں ہے مالک و مختار کا

0
2
گود تیری کتنی اعلی آمنہ
شاہِ مرسل تیرا جایا آمنہ
۔
سیدہ تُو طیبہ تُو طاہرہ
تیرا ہے کردار اعلی آمنہ
۔

0
10
ظالم کا تم ظلم دیکھو، کیسا ہے زوروں پر
پہلے تو ہے اپنے پر، پھر اپنوں، پھر اوروں پر

0
2
یوں اپنی بات کی طرز ادا بدلتے رہے
کہیں ردیف کہیں قافیہ بدلتے رہے
بدل نہ پائے وہی ہم جسے بدلنا تھا
تمام عمر مگر کیا سے کیا بدلتے رہے
اگا سکے نہ اندھیروں کو چیرتا سورج
یہ لوگ صرف دیے پر دیا بدلتے رہے

0
6
زباں پر نغمے ہیں اُن کے مدینے جا رہا ہوں
فضائے عشق و مستی ہے میں غوطے کھا رہا ہوں
حبیبی رحمتِ باری سنی جائے یہ زاری
نبی جی قصے الفت کے زباں پر لا رہا ہوں
لگیں مجھ کو کٹھن راہیں نگاہِ کرم ہو جائے
عطا تیری کے میں نغمے کریمی گا رہا ہوں

0
1
کُن سے بنائے جن کے سبب رب نے دو جہاں
اللہ کے آ رہے تھے وہ محبوب رازداں
۔
جب جلوہ گر ہوئے تھے وہ سردارِ انس و جاں
دھومیں تھیں عرش و فرش پہ خوشیوں کا تھا سماں
۔

0
16
نبیوں کے ہیں امام وہ کونین کے شہا
محبوبِ ربِّ کون و مکاں ،عرش کے دلھا
۔
نورِ خدا ہے اصل ، مقدس تیری ہے نسل
خِلقت تری عظیم ، لقب تیرا والضحی
۔

0
16
تری چشمِ کریمی کا اشارا چاہئے مجھ کو
بھنور میں ہوں نکلنے کو سہارا چاہئے مجھکو
تو جتنا دے مجھے آقا، مری ہستی سے بڑھ کر ہے
تری رحمت خزانہ ہے یہ سارا چاہئے مجھ کو
مری آنکھوں میں دنیا کا کوئی منظر نہیں جچتا
فقط اس سبز گنبد کا نظارہ چاہئے مجھ کو

3
28
زمانے کو یہ کیا ہوئے جا رہا ہے
یہ سوئے اجل ہی چلے جا رہا ہے
جدا کر چکا دین و دنیا کو زاہد
یہ نادان اب کیا کیے جا رہا ہے؟
یہ بھی دورِ حاضر کا اک کھیل ہے کیا؟
فسادِ زمن ہی بڑھے جا رہا ہے

8
زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ یہ شیخ بھی بادہ خوار ہوگا
کبھی تو زاہد کا بھی تعلق ہمارے سے استوار ہوگا
وطن مرا ہو چکا ہے آلودہ نفرتوں اور عداوتوں سے
جو خاتمہ کر دے ان کا ایسے ہی پیار سے اب تو پیار ہوگا

3

0
1
25
غزہ کی  رات خاموش تھی، مگر پُر سکون نہیں۔ ستارے چمک رہے تھے، جیسے  وہ ہمیشہ چمکتے تھے  گویا انہیں نیچے ہونے والے حادثوں کا علم نہ تھا۔عمارہ صرف 9 سال کی تھی۔ اسے پھولوں اور پرندوں کی ڈرائنگ کرنا بہت پسند تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی سمیع ، 6 سال کا تھا، جو اپنے والد کے بنائے ہوئے پرانے کپڑے اور دھاگے کی پتنگ کو دوڑاتے ہوئے خوش رہتا تھا۔ جب آسمان میں طیاروں کی گونج سنائی دیتی، تب بھی وہ بے خوف دوسرے بچوں کی طرح جینا چاہتے تھے ، جب بھی ممکن ہوتا، کھیل کود  کرتے، اور جب ضرورت پڑتی، چھپ جاتے۔ یہ انکھ مچولی کا کھیل برسوں سے جاری تھا۔ ان کا گھر چھوٹا تھا، دراڑوں سے بھرا ہوا ، مگر محبت سے بھرا ہوا ۔ کھانا کم تھا مگر اللہ کا کرم تھا زیادہ تر دن روزے سے گزر جاتے تھے۔ ان کی ماں، ہاجرہ ، انہیں موم بتی کی روشنی میں پڑھاتی بھی تھی اور رات میں کہانیاں بھی  سناتی تھی، کیونکہ زیادہ تر راتوں میں بجلی نہیں آتی تھی۔ ان کے والد ان کی روح کو مضبوط رکھنے کی کوشش کرتے، کیونکہ گھر اور سڑکیں اب محفوظ نہ تھیں۔اچانک ایک صبح،  زور دار آواز نے زمین کو ہلا دیا۔ گرج سے بھی بلند آواز ، بہت قریب۔ان کے گھر کے پاس

13

0
18