معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



352
4832
سیدھی سمتوں کا ترچھا کونا تھا
چھوٹی پگڑی میں لمبا بونا تھا
تاج ردی میں بکنے لگتا پر
اُس کو قیدی کا بیج ہونا تھا
ہاتھی گرتا جو گہری کھائی میں
شیر ریڑھی میں کاہے جونا تھا

0
3
سامنے جب صلیب ہوتی ہے
دِل کو راحت نصیب ہوتی ہے
وہ ہی مجھ کو سنبھال لیتا ہے
موت جب بھی قریب ہوتی ہے
جس کو اُلفت کسی سے ہو جائے
اُس کی دنیا رقیب ہوتی ہے

0
4
رات بھر بیٹھے تھے جو گھاٹ پہ نقشاء لے کر
جانے کس راہ سے بھاگے ہیں وہ اعضاء لے کر
غیز کا ابر چلا شیر کی آنکھوں میں ایاں
بادل مرگ چلا خوف کا سایا لے کر
اسنے مولا کو میرے خیر کہ دیکھا ہی نہیں
ورنہ خد دست پہ سر آتی زلیخا لے کر

0
3
یہ جسم اصل خاک ہے، یہ روح عکسِ کہکشاں
یہ سانس مثلِ روشنی ہے زیست اپنی رازداں
میں وقت ڈھونڈتا رہا، یہ ہاتھ سے نکل گیا
تھی سوچ کتنی بے خبر، جو بات تھی وہ تھی کہاں
عدم کی سرحدوں پہ کچھ وجود گھومتا رہا
کہ راہ میں تھے دائرے، تھی اور سعی بے نشاں

0
4
میری روشنی ہے تو، میری چاندنی ہے تو
دھوپ میں گھنا سایا، نرم تازگی ہے تو
بے قرار لمحوں میں ، بھیگی بھیگی راتوں میں
میری ہر خوشی میں بھی نرم سی خوشی ہے تو
چاہتوں کے صحرا میں بوند بوند برسا ہوں
میری پیاس کا موسم، تشنہ آگہی ہے تو

0
3
جتنا بھی میں نے چاہا، وہ اتنا نہیں کہیں
دل میں تری جدائی کا صدمہ نہیں کہیں
بادل کبھی بھی آنکھ سے برسا نہیں کہیں
تارا کوئی اُمید کا ٹوٹا نہیں کہیں
اک خواب تیرے وصل کا پلکوں پہ سج گیا
پر دل کی سرزمیں پہ وہ اترا نہیں کہیں

0
2
شب بیداری بھی کب نہیں ہوتی
جب ضرورت ہو تب نہیں ہوتی
تم جو چاہو تو بھول سکتے ہو
اتنی وحشت تو اب نہیں ہوتی
مجھ کو رنجش ملی ہے رشتوں سے
پھر بھی میں بے ادب نہیں ہوتی

1
16
میں تو "انزلنا" فرمایا گیا ہوں
دعا کا حرف پڑھایا گیا ہوں
کہیں پر خواب تھا، تعبیر تھی میں
کہیں بکھرا، کہیں پایا گیا ہوں
سوالوں میں رہا صدیوں تلک میں
کبھی چُپ تھا، کبھی گایا گیا ہوں

0
5
رکھوں اسطرح تیری یاد کو میں اور یادوں پر
کوئی عابد رکھے جیسے صحائف کو کتابوں پر
مجھی پر اس قدر لازم ہے تیری یاد کو رکھنا
خفاظت جس قدر لازم حرم کے پاسبانوں پر
ہو جب اس ارض خاکی پر نوائے سوز ہر جگہہ
تو کیسے چاک دامن ہو صدا دوں کس کو آہوں پر

0
5
رنج خوش طبع لحافوں میں بَسے دیکھ نہ پائیں
اتنے اچھے نہ بنیں آپ، بُرے دیکھ نہ پائیں
آنکھیں جل جائیں اوائل میں سبھی زود حِسوں کی
کس کے کتنے ہیں عزادار جلے دیکھ نہ پائیں
اتنی سُستی ہے کہ لمحے میں مقید ہیں ازل سے
اتنی عجلت ہے کہ اک بار سمے دیکھ نہ پائیں

10
جھلس گئے ہیں مرے ہاتھ تھامتے اُن کو
وہ جن اجالوں سے روشن جبین کرنی تھی
وہ اپنے باپ سے خود لڑ پڑا وراثت پر
وہ جس کے نام پہ ساری زمین کرنی تھی

0
2
کیا خبر کارزارِ وحشت ہو
آنکھ میری دیارِ وحشت ہو
دوستی میں یہی عقیدہ ہے
کہ مرا یار، یارِ وحشت ہو
ہم نے لبیک ہی کہا اُس پر
اذن ہو یا پکارِ وحشت ہو

0
2
گھونسلے دے کے پرندوں کو شجر کاٹتا ہے
کتنی آسانی سے امید کے پر کاٹنا ہے
وہ دیا جانتا ہے، کیسے سحر کاٹتا ہے
جیسے معذور پہاڑوں کا سفر کاٹتا ہے
چکھ لیا ایک نوالہ تو مرے گا تُو بھی
عشق وہ زہر ہے جو شیر و شکر کاٹتا ہے

0
3
یا تو فرہاد کی کہانی ہے
یا تری یاد کی کہانی ہے
دشت پہ لکھ رہا ہوں میں جس کو
دلِ آباد کی کہانی ہے
میں کہاں اور شاعری ہے کہاں
یہ تری داد کی کہانی ہے

0
4
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

352
4832