Circle Image

Ali Shaida

@Shaida

شمعِ خاموش پہ بیدار نظر ٹھہری ہے
جانے کس چاند کے گاؤں میں سحر ٹھہری ہے
شوق آمادۂ رفتار سفر ہے لیکن
تیری آہٹ پہ مری راہ گزر ٹھہری ہے
سازشیں ہجر کی ڈالے ہیں وہیں پر ڈیرا
خواہشِ وصلِ گماں زار جدھر ٹھہری ہے

0
9
ہم اذیت کے خرابے سے اٹھائیں آنسو
رات کاٹے تو چراغوں میں جلائیں آنسو
دھوپ سلگی ہے ابھی شعلۂ حدت باقی
پیاس جب ہوش میں آئے تو پلائیں آنسو
کوئے امکاں میں شناسا تو کوئی مل جاتا
ہجر زادے ہیں بھلا کس کو دکھائیں آنسو

0
9
آپ عنوانِ محبت ہیں سلامت رہئے
عشق والوں کی شریعت ہیں سلامت رہئے
کلمۂ وصل پہ ٹھہری ہیں نگاہیں جن کی
ہجر زادوں کی اذیت ہیں سلامت رہئے
دھوپ میں چھاؤں کا منظر ہو میسر یارو
دشت میں یادیں غنیمت ہیں سلامت رہئے

0
11
شب کی آہٹ پہ گزرتی ہے کہانی میری
وقت کیا مانگے اجالوں سے نشانی میری
شورِ آزار کسی کو نہ سنائی دے گا
جذب سناٹوں میں ہوتی ہے روانی میری
زرد چھاؤں سے نکل لمس نہ جم جائےکہیں
سینکنے آؤ کبھی دھوپ سہانی میری

0
8
بہت بدنام ہونا چاہتا ہوں
تماشا عام ہونا چاہتا ہوں
نزولِ غم ہے ساقی جام بھر دے
متاعِ شام ہونا چاہتا ہوں
درِ انصاف پر تالا چڑھا دو
سرِ الزام ہونا چاہتا ہوں

0
10
خلوت کدے میں چاہ کے نا عکسِ غیر رکھ
اپنے مکاں میں کوئی نہ اپنے بغیر رکھ
پکی سڑک پہ دھوپ نے مرہم بچھا دیا
تو آبلوں کا سوچ نہ بے فکر پیر رکھ
دشتِ جنوں کے ظرف میں ہو آشنائے غم
پاؤں کی ٹھوکروں پہ تماشائے سیر رکھ

1
52
دل کے زندان سے یک مشت نکالی جائے
ہم سے اب یاد تمہاری نہ سنبھالی جائے
خانۂ وصل گمان اب جو مقفل ہونا
آخری چاہ کی میت ہے اٹھالی جائے
لوگ آنکھوں میں نمی دیکھیں تو رسوائی ہے
ایسے خالی ترے در سے نہ سوالی جائے

0
1
12
اب کے گاؤں آنا ہو تو رُت اُجلا کر لے آنا
چھاؤں لے کر آئی تھی اب دھوپ اٹھا کر لے آنا
کب تک بستی والے رستہ عید کا تکتے رہ جائیں
رنگِ شفق ماتھے پر روشن چاند سجا کر لے آنا
موسم ہے برسات کا اترا بادل چھائے آنکھوں میں
سرخ دوپٹہ نیلی چادر ساتھ سُکھا کر لے آنا

0
11
منتظر آنکھوں کا دروازہ مقفل ہو گیا
شام ہوتے آخری منظر بھی اوجھل ہو گیا
وقت سے جانا بساطِ آرزو کی خستگی
کل پہ چھوڑا تھا جسے وہ آج بھی کل ہو گیا
ایک ہی آنسو تھا لا کر رکھ دیا قرطاس پر
ایک افسانہ ادھورا تھا ، مکمل ہو گیا

0
12
اچھا ہوا کہ بات بگڑ کر بنی نہیں
بنتی نہیں تھی تجھ سے ستمگر بنی نہیں
ہم لوگ مطمئن ہیں قناعت پسند ہیں
گاؤں میں آب جو ہے سمندر بنی نہیں
ہم نے تو آزمائے سبھی موسموں کے رنگ
تصویرِ انتظار برابر بنی نہیں

0
20
سایہ اپنا ہی تھا چل پڑا سر کے بل
ورنہ یاں ہم سفر کون ہے آج کل
کچھ نیا چاہئے عشق کے واسطے
خواب ہے وصل یا ہجر ہے سب خلل
کتنا لمبا سفر جھاڑ کر آگئے
اک صدی، سال بھر یا کہ دو چار پل

0
13
بادِ صرصر کیا اٹھی صحرا سے گھر تک آگئی
رقص کرکے چھت سے اتری صحنِ درتک آگئی
گردشِ کون و مکاں میں ہم بھی شامل ہوگئے
جنبشِ شوقِ جنوں جو دل سے سر تک آگئی
ٹوٹتا رہتا ہے کاسہ اعتبارِ عشق میں
مسئلہ ہے بات اپنی کوزہ گر تک آگئی

0
16
فراخِ رہ گزر کی بات کیا چھیڑیں
متاعِ پا سفر کی بات کیا چھیڑیں
سکونِ دشت راس آیا جنوں کو ہے
طلسمِ بام و در کی بات کیا چھیڑیں
جہاں بے سر لئے دستار ہیں بیٹھے
وہاں سردار سر کی بات کیا چھیڑیں

0
18
آنسو ٹپکا اور دامن پر پھیلا داغ
شاخِ پلک سے ٹوٹ کے جیسے اترا داغ
بوئے محبت لاکھ چھپائے بیٹھے تھے
ہم کیا جانیں کر بیٹھا ہے رسوا داغ
ایک پرانا زخم ہے آؤ یاد کریں
چھوڑ گیا ہے اپنے پیچھےگہرا داغ

0
14
کسی کے ہو بہ ہو ہونا نہیں ہے
ترا ہونا ہے تو ہونا نہیں ہے
مقامِ خامشی یا رب عطا کر
کہ صرفِ گفتگو ہونا نہیں ہے
پلٹ دو عکسِ آئینہ کے منظر
نگاہے رو برو ہونا نہیں ہے

0
14
کون تیری نظر اتارے گا
اپنی اوقات ہی سنوارے گا
جیت جائے گا وقت کی بازی
عشق میں جو بھی وقت ہارے گا
جی رہا ہوں میں کیوں ترے غم میں
مجھ کو تیرا ہی غم جو مارے گا

0
16
ڈر گیا تو کیا ہوا
مر گیا تو کیا ہوا
مجھ کو جانا ہی نہ تھا
گر گیا تو کیا ہوا
اپنی پگڑی تھام لو
سر گیا تو کیا ہوا

1
18
دشتِ جنوں میں چار سو گردِ دھمالِ عشق ہے
حسن تماشہ بین ہے رقصِ سوالِ عشق ہے
آگ کے سارے حوصلے توڑ کے گُل نے رکھ دئے
وہ تو خرد کی بات تھی یہ تو کمالِ عشق ہے
کوئی کتاب لا کے دے کوئی سخن کہ طے کرے
کوئی نصاب جس میں اک حرف زوالِ عشق ہے

0
20
ترا خاموش جادو بولتا ہے
مرا ہی کب ارسطو بولتا ہے
تباہی کے وہی دو بول اکثر
شجر پہ آکے الو بولتا ہے
قلندر لے گیا تیری خموشی
یہاں اب میرا سادھو بولتا ہے

0
24
ایک ترا ہی ذکر ہے میرے ہر ایک ذکر میں
تیرا خیال بے کراں میرے حصارِ فکر میں
تو جو خدائے عشق ہے صانعِ تاب حسن بھی
کوئی نصابِ وصل رکھ میری کتاب ہجر میں
فصلِ گماں پہ آگئے جیسے یقین کے گلاب
زلف کو چھو کے ڈھل گئی بادِ صبا بھی عطر میں

0
14
اے دشتِ غم کے میرے مسافر سفر اٹھا
قدموں کی آہٹیں ہیں پڑی در بدر اٹھا
اے ماہ رخ ہے تجھ پہ جو واجب زکواۃِ حسن
اک مستحق میں تیرے ہوں در پر نظر اٹھا
دونوں کے درمیان ہے تمثیل لا یحل
میں بھی' اگر" ہٹاؤں گا تو بھی "مگر" اٹھا

0
21
ایک اٹھتی ہوئی دیوار پہ رونا آیا
بٹ گۓ لوگ تو گھر بار پہ رونا آیا
وصل کے گیت بہاریں تھیں سنایا کرتی
ہجر کے تازہ سخن زار پہ رونا آیا
زندگی آپ کے اوراق الٹنے بیٹھے
لفظ آنکھوں میں چبھا پیار پہ رونا آیا

0
20
ایک اٹھتی ہوئی دیوار پہ رونا آیا
بٹ گۓ لوگ تو گھر بار پہ رونا آیا
وصل کے گیت بہاریں تھیں سنایا کرتی
ہجر کے تازہ سخن زار پہ رونا آیا
زندگی آپ کے اوراق اُلٹنے بیٹھے
لفظ آنکھوں میں چبھا پیار پہ رونا آیا

0
15
ہم نے جب بھی بات کی تو آدمی کی بات کی
موت کو رہنے دیا اور زندگی کی بات کی
اپنے مسلک میں جو لکھا ہے وہی ہم نے کیا
دشمنوں کی صف میں آکر دوستی کی بات کی
حسن والوں تک یہی پیغام پہنچائے کوئی
عہدِ پیری میں بھی ہم نے عاشقی کی بات کی

16
راستے میں کئی راستے کھو گئے
آہٹیں چل پڑیں فاصلے کھو گئے
اس قدر بھی خسارہ اٹھانا پڑے
آنسؤں میں سبھی قہقہے کھو گئے
خارزاروں سے یوں بھی گزرنا پڑا
زخم رستے رہے آبلے کھو گئے

40
اس بار ہمسفر بھی کوئی راستہ نہیں
اک آسماں ہے وہ بھی مرے کام کا نہیں
تا حدِّ آنکھ پھیلے سمندر کی بے رخی
کشتی نہیں ہے موج نہیں ناخدا نہیں
اتنے پڑاو ہم نے اچھالے کہ تھک گئے
رہنے دو کام جس کا کوئی فائدہ نہیں

0
22
کسی کی جنگ ہم کیوں لڑ رہے ہیں
پرائے مسئلے میں پڑ رہے ہیں
کسی کی راہ تکنا بھی سفر ہے
مری آنکھوں میں چھالے پڑ رہے ہیں
محبت کو ادھیڑیں کب تلک اب
نیا کوئی فسانہ گڑھ رہے ہیں

0
28
تم نئی ہو کہ یا پرانی ہو
خواب زادوں کی ہی کہانی ہو
خشک موسم کا پیرہن اوڑھا
ورنہ دریاؤں کی روانی ہو
ہم زمیں زاد جانتے ہیں تمہیں
تم پری ہو اور آسمانی ہو

0
42
غزل جو لکھ نہیں پائے غزل ہو تم وہی جاناں
صریرِ خامہ لُٹ جائے غزل ہو تم وہی جاناں
سُلجھنے کا ابھی موقع نہ دینا تم گھٹاؤں کو
جو فصلِ گل سے اُلجھانے غزل ہو تم وہی جاناں
کئی منظر اٹھا لائے ترے پیکر کے آئینے
کہ سائے خود سے ٹکرائے غزل ہو تم وہی جاناں

36
اک دھواں سا جہاں میں رہتا ہوں
اپنے خالی مکاں میں رہتا ہوں
مجھ کو لے چل جہاں تری مرضی
تو جہاں ہے وہاں میں رہتا ہوں
اشک بن بن کے ہو رہا نیلام
درد و غم کی دکاں میں رہتا ہوں

54
کل ہوا آج تو اب آج کو ہے کل ہونا
اپنے افسانے کو آیا نہ مکمل ہونا
یعنی سب ٹھاٹ پڑا یوں ہی یہ رہ جائے گا
یعنی طے پایا ہے اس گھر کا مقفل ہونا
موسمِ وصل پہ اتراؤ نہ بانکے رسیا
ہجر کی شاخ پہ لکھا ہے جو حنظل ہونا

26
اپنے اپنے ہم نے اپنے بدل ڈالے
بے چہروں کی طرح ہی چہرے بدل ڈالے
کھینچا تانی کرداروں میں آنی تھی
وقت نے بھی قرطاس پہ قصے بدل ڈالے
رات گئے اک دستک گھر گھر پھرتی تھی
دروازوں نے اٹھ کر کتبے بدل ڈالے

47
زندگی اٹھ کر سفر ڈھونے لگی
اک مسافر کی طرح ہونے لگی
آنکھ، جس نے ہجر کاٹا جاگتے
مدتوں کے بعد اب سونے لگی
یہ نئے موسم کی بارش آتے ہی
اک پرانے خواب کو دھونے لگی

0
55
کس اشکِ انفعال سے خوں دھوئے کربلا
زیرِ علم ہے غرقِ الم کوئے کربلا
پلکوں سے چن رہے تھے فرشتے لہو کے پھول
باغِ ارم کو چاہیے خوشبوئے کربلا
آنکھوں میں تشنگی کا جو روزن ہے آتِشیں
پیاسا لبِ فرات کہاں سوئے کربلا

0
43
اعلی ترین نام سے اعلی کہوں تُجھے
بعد از خُدا بزرگ ہیں آقا کہوں تُجھے
کُن کی صدا سے پیشتر اُس انتخاب کو
جو اوّّّّلاً ہے مصطفی اولی' کہوں تُجھے
رب نے چُنا تو آپؐ کو ہی حُسنِ الکتاب
یاسیں کہوں مُزمّل و طہ' کہوں تُجھے

43
زندگی سے بھلا گلہ ہی سہی
موت سے پہلے تجربہ ہی سہی
وقت کے تھک گئے پڑاؤں کا
دور تک ایک سلسلہ ہی سہی
نقش آنکھوں میں ہے پڑا محفوظ
تیری تصویر گمشدہ ہی سہی

0
58
آقا ﷺ ہیں مدینہ جو بُلائیں تو عجب کیا
بگڑی ہے مری بات بنائیں تو عجب کیا
مانا کہ ہمیں زادِ سفر کچھ بھی نہیں ہے
آسان سفر آپ ﷺ بنائیں تو عجب کیا
پلکوں پہ کیا جن کے لئے ہم نے چراغاں
اس بار وہی ﷺ خواب میں آئیں تو عجب کیا

0
43
دھیان میں بیٹھے چھان جو مارا کونا کونا چھوڑ دیا
ہجر کی ہر ساعت سے لپٹے وصل میں کھونا چھوڑ دیا
مجنوں بن کے سیکھ لیا ہے خاک اڑا کر ہنس لینا
لیلی تیرے ہجر میں ہم نے رونا دھونا چھوڑدیا
مٹی کے برتن لے آیا گاؤں کی کُمہارن سے
یادوں کی دہلیز پہ تیری چاندی سونا چھوڑ دیا

0
25
محبت کے لئے پہلے سے تیاری نہیں ہوتی
یہ ہے وہ درد جسکی وجہ بیماری نہیں ہوتی
نگاہے حُسن کو حاصل ہنر ہے زخم کاری کا
کوئی خنجر نہیں ہوتا کوئی آری نہیں ہوتی
نشانے پر بھی ہم ہی قتل بھی ہم ہی کو ہونا ہے
چھُپی ہر ہاتھ میں تلوار دو دھاری نہیں ہوتی

0
48
ہماری بات سے آگے کہ جس نے بات رکھی ہے
اسی کا مسئلہ ہے جیت ہے یا مات رکھی ہے
وہی اب طے کرے گا حسن معنی میں کہ تو لیکر
پسِ آئینہ جس نے عکس بن کر ذات رکھی ہے
ہمیں معلوم حرفِ مدحتِ لوحِ تقدس ہے
صریرِ خامہ پر ہم نے مقدم نعت رکھی ہے

0
32
درد کو چارہ گر دئے ہم نے
زخم اوروں کے بھر دئے ہم نے
آگ اس نے ہوا سے باندھی تھی
شوق اس کا تھا گھر دئے ہم نے
بھول کر بھی وہ لوٹ کب آئے
جن پرندوں کو پر دئے ہم نے

0
44
دھڑکن سی دھڑکتی ہے جو دھڑکن کی صدا سُن
آ میرے بڑھاپے تو لڑکپن کی صدا سُن
کب تک میں سناؤں تجھے قسطوں میں اذیت
اس روح میں آ بیٹھ کے تن من کی صدا سُن
کانوں میں ترے رقص جو رس گھول رہا ہے
چولہے پہ کسی بھوک کے برتن کی صدا س٘ن

0
33
زندگی اشتہار میں رکھ دو
سرخیوں کی قطار میں رکھ دو
ہم زمیں زاد بھی ہیں سیارے
آسمانو ! شمار میں رکھ دو
دھوپ تھوڑی بچائے رکھ لینا
تھوڑی چھاؤں حصار میں رکھ دو

0
54
کیا بتاؤں کہ کیا سمجھتا ہوں
آدمی ہوں خدا سمجھتا ہوں
تم سبب پوچھتے ہو رونے کا
میں ترا قہقہہ سمجھتا ہوں
کھول کر نقش دان کے دھاگے
ذرٗہ ذرّہ ذرا سمجھتا ہوں

0
46
اٹھائے جانا ہمیں راستہ ہے آگے تک
کوئی نہ ساتھ چلے دوسرا ہے آگے تک
کہاں یہ دشت نوردی تھکا ہمیں دے گی
ہمارے ساتھ جنوں کی دعا ہے آگے تک
بری خبر ہے سنائی جو اہل موسم نے
ملول یونہی چمن کی فضا ہے آگے تک

0
37
ہمیںں بیمار کر ڈالا دوا نے
طوالت بخش دی اپنی دعا نے
بہت گہرائیاں لیکر تھے ڈوبے
جھٹک کر کھینچ لایا ہے خلا نے
ہزاروں سلوٹیں ہیں پانیوں پر
دوپٹہ کس کا چھیڑا ہے ہوا نے

0
44
حرفِ مصلے لے کر بیٹھے ہیں میخانہ چھوڑ دیا
آئینے سے پردہ کرکے آنکھ ملانا چھوڑ دیا
اوڑھ کے نکلے خاک بدن پر عریانی کا پیراہن
روشندانوں کی نظروں سے یوں گھبرانا چھوڑ دیا
وقت نے جب دیوار اٹھائی چاہت کی اونچائی تک
پھر ہم نے بھی اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا

0
41
دھیان میں بیٹھے چھان جو مارا کونا کونا چھوڑ دیا
ہجر کی ہر ساعت سے لپٹے وصل میں کھونا چھوڑ دیا
مجنوں بن کے سیکھ لیا ہے خاک اڑا کر ہنس لینا
لیلی تیرے ہجر میں ہم نے رونا دھونا چھوڑدیا
مٹی کے برتن لے آیا گاؤں کی کمہارن سے
یادوں کی دہلیز پہ تیری چاندی سونا چھوڑ دیا

0
66
مسئلہ ہے ۔۔دھوپ چھاؤں ۔۔۔ زندگی
گھر نہیں آنگن نہ گاؤں ۔۔۔۔۔ زندگی
ڈھونڈنے نکلا ہوں۔۔۔۔۔ اپنے آپ کو
تو بتا آؤں کہ جاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی
دکھ کے سارے لفظ باہم کرلئے
عمر بھر غزلیں سناؤں ۔۔۔۔۔۔۔زندگی

0
59
کیسا رشتہ بحال ہونا ہے
خاک ہوں، انتقال ہونا ہے
اتنا صحرا ہوں چھان کیا ماروں
تھک کے آخر نڈھال ہونا ہے
وقت مجھ کو تلاش ہے کرتا
یعنی پھر سے سوال ہونا ہے

0
38
رقص ٹوٹا دشت میں دیکھا نہ دیوانہ گیا
زندگی کے ہاتھ میں کچھ ہے نہیں، مانا گیا
دھول جب بھی خاک کے پیکر پہ ڈالی وقت نے
آئنے میں عکس لاکر ہم سے پہچانا گیا
کرگئی صحبت خیالِ یار کی سرشار یوں
پیاس ہونٹوں سے گئی ہاتھوں سے پیمانہ گیا

0
48
اپنی پرچھائی سے ہونا آشنا ممکن نہیں
رقص میں ہم ہیں تو دامن تھامنا ممکن نہیں
اوڑھ لے خوابوں کی چادر صبح تک سوجائیو
رات بھر آنکھوں میں اپنی جاگنا ممکن نہیں
شہر بھر کے شور سے دامن چھڑا کر آگئے
اب یہ مشکل ہے کہ خود سے بھاگنا ممکن نہیں

0
61
گھر سے نکلے ہو تو رفتار پکڑ لی جائے
راہ دشوار کہ ہموار ، پکڑ لی جائے
دشت کاٹے تو ذرا خاک اڑا کر دیکھو
آبلہ پائی ء بیمار پکڑ لی جائے
ہمسفر کرلو ملے شور و فغانِ جنگل
شہر سنسان ہو، دیوار پکڑ لی جائے

0
61
زخم سارے نچوڑ کر نکلا
درد کا گاؤں چھوڑ کر نکلا
ہاتھ ملتے رہے درو دیوار
چپ رہا، ہاتھ جوڑ کر نکلا
پختہ دیوار تھی نہیں حائل
آئنہ تھا جو توڑ کر نکلا

0
82
آئنے میں اتر گئے ہوتے
ٹوٹ کے ہم بکھر گئے ہوتے
زندگی کے بھی کچھ تقاضے ہیں
ورنہ جاں سے گزر گئے ہوتے
غم کی ہوتی مٹھاس ہے اپنی
کوئی چارہ تو کر گئے ہوتے

0
58
شوق کو آر پار ڈالا ہے
دل کی سرحد کو مار ڈالا ہے
روز اٹھتا دھواں ہے دل سے کیوں
کس نے یہ انتشار ڈالا ہے
ہجر کا ہائے ناتواں دل پر
بوجھ کیوں بار بار ڈالا ہے

0
75
رنگ و بو کے استعاروں سے سنواری ہے غزل
تیرے آنچل کی فضاؤں سے گزاری ہے غزل
چاندنی کو آئنے کے عکس میں رکھا گیا
دھوپ نے پھر ہم سے لکھوائی تمہاری ہے غزل
تیرا سایہ آ پڑا ہے سادہ رو قرطاس پر
ورنہ کب لفظوں سے ہوتی اتنی پیاری ہے غزل

0
45
سرابِ دشت سے آگے نہیں کچھ
ہوا کچھ آگ یا پانی زمیں کچھ
بہت ساماں مرے گھر میں پڑا تھا
نظر آتا نہیں لیکن کہیں کچھ
اٹھا کر وقت شاید لے گیا ہو
کھلونا ساجو رکھا تھا یہیں کچھ

0
57
وقت ہے ہم خیال ۔۔۔ رہنے دے
وقت ہی کی ہے چال ۔۔ رہنے دے
جانے کس کی تلاش میں گزرے
زندگی ! ماہ و سال۔۔۔۔۔رہنے دے
چڑھ رہا ہے جو سیڑھیاں سورج
لے کے اپنا زوال ۔۔۔۔ رہنے دے

0
65
یہ جنگل لکڑیاں رکھتا نہیں ہے
کہ گاؤں لڑکیاں رکھتا نہیں ہے
دھواں ہم نے زمینوں میں اگایا
چمن اب تتلیاں رکھتا نہیں ہے
پیاسا دشت جھانکے نا کہیں سے
سمندر کھڑکیاں رکھتا نہیں ہے

0
42
جانے کس دورِ فِتن کی رسم دہرائی گئی
عشق زادے کو قبائے خاک پہنائی گئی
اور کیا کارِ جنوں تھا رزم گاہے عشق میں
اک ہزیمت در بدر تھی ہم سے اپنائی گئی
ہجر کا موسم تھا سورج سات نیزے پہ تپاں
شاہ زادے کو حشیشِ دشت دکھلائی گئی

0
48
بجھی راکھ کیوں خواب گاہوں پہ ڈالیں
دھواں گرم ہے سرد آہوں پہ ڈالیں
نیا مسئلہ ہے نئی گفتگو ہو
نیا بوجھ کتنا گناہوں پہ ڈالیں
ہمیں پوچھنا آہٹوں سے پڑے گا
اٹھا کر سفر کتنی راہوں پہ ڈالیں

0
57
میں خود ہی درمیاں اک فاصلہ ہوں
سفر مشکل ہے لیکن چل پڑا ہوں
سمٹ آتا ہوں جیسے ہوں نہیں میں
بکھر جاتا ہوں جیسے جابجا ہوں
مجھے یوں آئنہ کیوں گھورتا ہے
میں شاید اور کوئی دوسرا ہوں

0
37
نفرتوں کا تہ و بالا کیجئے
آدمی کو عشق والا کیجئے
ترش چیزیں لے کے مت گھوما کریں
جیب میں میٹھا بھی ڈالا کیجئے
آنے والوں کا سفر آسان ہو
راہ ٹوٹی ہے سنبھالا کیجئے

0
46
فیصلہ دل کا سنایا جائے گا
حشر کہتے ہیں اٹھایا جائے گا
دھوپ رستہ کاٹتی رہ جائے گی
جس طرف یادوں کا سایا جائے گا
پھر چناروں سے دھواں اٹھنے لگے
پھر کوئی منظر جلایا جائے گا

0
60
یعنی وفاؤں پر نہ جفاؤں پہ ڈال دی
آخر وہ بات ہم نے خطاؤں پہ ڈال دی
رخصت ہوا تو سارے کھلونے سمیٹ کر
اک آخری نگاہ جو گاؤں پہ ڈال دی
برسوں کا بوجھ تھا جو کہیں پر اتارنا
اپنی تکان اپنی ہی چھاؤں پہ ڈال دی

0
52
سرابِ دشت سے آگے نہیں کچھ
ہوا کچھ آگ یا پانی زمیں کچھ
بہت ساماں مرے گھر میں پڑا تھا
نظر آتا نہیں لیکن کہیں کچھ
اٹھا کر وقت شاید لے گیا ہو
کھلونا ساجو رکھا تھا وہیں کچھ

0
58
کتنی ترتیب سے خوش بخت سنبھالا ہے نمک
بند مٹھی میں کسی شخص نے پالا ہے نمک
حرمتِ دید پہ احسان جتایا جائے
اشک آلودہ سمندر سے نکالا ہے نمک
وقت لگتا ہے چھڑکنے میں ' ہے فرصت کس کو
اس نے یکمشت ہی زخموں پہ جو ڈالا ہے نمک

0
36
وقت خود پیچھے رہا دکھ درد کو آگے کیا
ہم نے بازو کھول کر چپ چاپ بانہوں میں لیا
شام کی خوشبو میں تھیں پاگل ہوا کی دھڑکنیں
ہم نے بھی کھڑکی پہ اک جلتا ہوا رکھا دیا
شاعری کو آپکے رخسار سے چھو کر پڑھیں
ہو غزل دلی کی یا پنجاب کا ہو ماہِیا

0
57
دھوپ کا راستہ ہے آنکھوں میں
ابر کیوں آئنہ ہے آنکھوں میں
دشتِ داماں پہ خیمہ زن ہوگا
چل پڑا قافلہ ہے آنکھوں میں
وہ جو نمکین تھا مزہ نہ رہا
اک نیا ذائقہ ہے آنکھوں میں

0
49
غزل
وفورِ اشک یوں ماتم نہ کیجئے
غمستاں ہےغموں کا غم نہ کیجئے
پلک پہ ضبط کا رہنے دیں پہرہ
لہو سے تر کُشا پرچم نہ کیجئے
تصور میں سنوارے ہیں کسی کو

0
45
دل میں کہرا ٗ آنکھ میں آنسو بھرا رہ جائے گا
ذرہ ذرہ یوں سمٹ کر اک ذرا رہ جائے گا
زرد موسم کی ہوائیں جھاڑ ہی دیں گی شجر
شاخ جاں پر ہجر کا پتا ہرا رہ جائے گا
ہم نے کھینچا ہے جو نقشہ دشتِ امکانات کا
دیکھنا اک روز یہ سارا دھرا رہ جائے گا

0
111
*غزل*
دل کا اجڑا گھر بسا کر چل دئے
آئنہ خود کو دکھا کر چل دئے
گھر کے اندر اور کچھ ساماں نہ تھا
تیری تصویریں اٹھا کر چل دئے
کراس وے پر آنے والوں کے لئے

0
64
یہی اک انترا ہے آج کل جو عام چلتا ہے
کسی کا کام ٹھہرا ہے کسی کا نام چلتا ہے
ہمارے شہر میں اک کہکشاں ہے سرخ لفظوں کی
اسی سے خوں طلب افسانہ صبح و شام چلتا ہے
کوئی سکہ نہیں کھوٹا سیاست کی تجوری میں
کوئی سکہ نہیں سکے کا لیکن دام چلتا ہے

0
57
سبیلِ اشک ہے غم ابر سا دے
دہکتی آتشِ ہجراں بجھا دے
سلگتی ہے جنوں کی سرحدوں تک
بکھرتی ریت پر شبنم بچھا دے
فراغِ دیدنی میں ہے بہت شور
شعورِ چشم کو پھر خوابِ لا دے

0
31
کچھ نہیں ہوتا ہے تو ہوتا ہے کیا
آئنے سے پوچھ لو ہوتا ہے کیا
کیوں پڑھاتے ہو ریاضی کا سبق
عشق میں بھی ایک دو ہوتا ہے کیا !
کچھ نہیں ہے ہونے والا کچھ نہ کچھ
جو ہوا ّ جانے بھی دو ّ ہوتا ہے کیا

0
60
ہم ہی نے اشکوں کی لاج رکھ لی ہم ہی پہ ہنستا رہا زمانہ
ہم ہی سے مانگی گئی کہانی ہم ہی کو سُننا پڑا فسانہ
تمہارے موسم میں اور کیا ہے جو میرا موسم ادھار مانگے
یہاں بھی آنسو تھرک رہے ہیں وہاں بھی بارش کا ہے ترانہ
محبتوں کی حکایتوں کا نچوڑ آخر ہے دو ہی باتیں
قریب ان کے ہیں چاند تارے نصیب اپنا بے رایگانہ

0
37
یہ تقاضے بدل بھی جاتے ہیں
وقت کے آج کل بھی جاتے ہیں
اک دریچہ کھلا جو رہتا ہے
لوگ دل سے نکل بھی جاتے ہیں
درد رہتا ہے لڑکھڑانے کا
پاؤں جن کے سنبھل بھی جاتے ہیں

0
62
آج پھر دشت ہار کر آئے
رہ نوردی سنوار کر آئے
زندگی کی بدل گئی نیّت
ہاتھ تربت پہ مار کر آئے
ہم بھی تھے آئنوں کے میلے میں
خود سے آنکھیں نہ چار کر آئے

0
67
کتنی میٹھی یہ بھوک ہے بابا
تشنگی کا سلوک ہے بابا
ہجر وارد نہ اس طرح کیجئے
ہو رہی بھول چوک ہے بابا
حسن سے بول کردے صرفِ نظر
لب پہ ٹھہری جو اوک ہے بابا

0
54
*غزل*
دل میں اتری سی نوک ہے بابا
عشق پر کوئی روک ہے بابا !
زخم پرچون میں ملے لیکن
درد کا مال تھوک ہے بابا
آہ بھرنے کی چھوٹ ہے اے دل

0
115
ہم کسی خواب کو لے کر ہی چلے ہیں صاحب
دشت در دشت سرابوں میں پلے ہیں صاحب
پُر سکوں دھوپ میں لے کر ہی سکھا دو پل بھر
تیز بارش میں کئی روز جلے ہیں صاحب
درد کی راہ میں پھولوں کی دُکانیں کھولی
حادثے غم کے اسی طرح ٹلے ہیں صاحب

0
82
*غزل*
خشک دریا تھا آب تھا ہی نہیں
آنکھ کھولی تو خواب تھا ہی نہیں
اب تلک جو پڑھا سنا سمجھا
زندگی تیرا باب تھا ہی نہیں
آخری خط اُسی کا آیا تھا

0
110
مکمل کوشش۔۔
ابھی ہے رات میری دن ہے میرا
ابھی بوتل میں میری جِن ہے میرا
ہوں خود کو جوڑنے کی کوششوں میں
وجودِ خاک ہی بِن بِن ہے میرا
کھلاڑی عشق میں آیا نیا ہوں

0
111
*غزل*
ہم کو اس دشت کے اس پار سلا کر رکھنا
اپنی چھاؤں کی ہری شاخ جھکا کر رکھنا
راہ اپنا بھی اندھیرا ہے بھٹکنے والا
اب دِیا طاق پہ تم بھی تو بجھا کر رکھنا
دشتِ ہجراں سے گزارا ہوں میں جاتا لوگو

0
124
*غزل*
رکی ہوا پہ کہانی تلاش کرتا ہوں
حروفِ ابرِ معانی تلاش کرتا ہوں
نصابِ رنگ ابھاروں رِدائے کاغذ پر
کہ بے زباں ہوں زبانی تلاش کرتا ہوں
یہی تو اپنا گماں زار ہے رہے آباد

0
140
*غزل*
بات کوئی نہ تھی خلاصہ تھا
اک ستارے پہ اک خرابہ تھا
اک ہوا کے سپرد کر بیٹھے
راستے میں پڑا لفافہ تھا
جتنے ہندسے تھے خرچ کر ڈالے

0
79
درد آخر گھٹا دیا ہم نے
زندگی کو بڑھا دیا ہم نے
حسرتو ں کے پرانے آنگن سے
دل کا لاشہ اٹھا دیا ہم نے
ایک ہی خواب تھا کنارے پر
آنسؤں میں بہا دیا ہم نے

0
84