کتنی میٹھی یہ بھوک ہے بابا
تشنگی کا سلوک ہے بابا
ہجر وارد نہ اس طرح کیجئے
ہو رہی بھول چوک ہے بابا
حسن سے بول کردے صرفِ نظر
لب پہ ٹھہری جو اوک ہے بابا
خیمہ زن ہیں یہاں وہاں شبہات
دل دیارِ شکوک ہے بابا
دھڑکنوں میں ہے چہچہاہٹ سی
جیسے کوئل کی کوک ہے بابا
ہم فقیروں کا کیا یہاں آنا
یہ تو شہرِ ملوک ہے بابا
زخم ناسور ہوگیا ہوگا
خون آلودہ تھوک ہے بابا
زرد چہرے پہ چھا گئی شیدؔا
سرخ رنگوں کی ہوک ہے بابا
*علی شیدؔا*

0
54