غزل جو لکھ نہیں پائے غزل ہو تم وہی جاناں
صریرِ خامہ لُٹ جائے غزل ہو تم وہی جاناں
سُلجھنے کا ابھی موقع نہ دینا تم گھٹاؤں کو
جو فصلِ گل سے اُلجھانے غزل ہو تم وہی جاناں
کئی منظر اٹھا لائے ترے پیکر کے آئینے
کہ سائے خود سے ٹکرائے غزل ہو تم وہی جاناں
نئے صحرا بکھرتے ہیں جزیروں کے حوالے سے
سمندر دھوپ نہلائے غزل ہو تم وہی جاناں
حروفِ کہکشاں ہم نے پرونے کی جو کوشش کی
شعورِ رنگ گھبرائے غزل ہو تم وہی جاناں
تری فرقت میں شیدؔا نے اگائے اشک کے موتی
وہی کاغذ پہ پھیلائے غزل ہو تم وہی جاناں

43