فیصلہ دل کا سنایا جائے گا
حشر کہتے ہیں اٹھایا جائے گا
دھوپ رستہ کاٹتی رہ جائے گی
جس طرف یادوں کا سایا جائے گا
پھر چناروں سے دھواں اٹھنے لگے
پھر کوئی منظر جلایا جائے گا
ڈوب جائیں گے کنارے خواب کے
آنکھ کو شب بھر رلایا جائے گا
قہقہے اترینگے چیخوں پر مری
جشنِ ماتم یوں منایا جائے گا
ختم ہوجائیں گے ہندسے ایک دن
وقت کو پیچھے گھمایا جائے گا
عشق کے مقتل میں شیدؔا ہر کوئی
اپنی باری پر بلایا جائے گا
*علی شؔیدا*

0
68