شمعِ خاموش پہ بیدار نظر ٹھہری ہے |
جانے کس چاند کے گاؤں میں سحر ٹھہری ہے |
شوق آمادۂ رفتار سفر ہے لیکن |
تیری آہٹ پہ مری راہ گزر ٹھہری ہے |
سازشیں ہجر کی ڈالے ہیں وہیں پر ڈیرا |
خواہشِ وصلِ گماں زار جدھر ٹھہری ہے |
ایک ہلچل ہے شبستانِ گل و بلبل میں |
بادِ صرصر جو لئے تازہ ہُنر ٹھہری ہے |
کل کی بارش پہ ترا نام تھا لکھا رُت نے |
آج پھر دھوپ ترے زیرِ اثر ٹھہری ہے |
کتنے بے حال ہوئے اس نے جو کھڑکی کھولی |
کوچۂ مرگ میں فی الحال خبر ٹھہری ہے |
جاگ اٹھتی ہے کوئی یاد پرانی شؔیدا |
سانس لگتی ہے کہ چلتی ہے مگر ٹھہری ہے |
معلومات