سرابِ دشت سے آگے نہیں کچھ |
ہوا کچھ آگ یا پانی زمیں کچھ |
بہت ساماں مرے گھر میں پڑا تھا |
نظر آتا نہیں لیکن کہیں کچھ |
اٹھا کر وقت شاید لے گیا ہو |
کھلونا ساجو رکھا تھا یہیں کچھ |
نشاں زادوں سے سجدہ کہہ رہا تھا |
ملایم ہوگیا سنگِ جبیں کچھ |
نمی پلکوں پہ ہونی ہے ضروری |
کہ پہلو میں پڑا ہے آتشیں کچھ |
اچھالیں کیا ابھی ان پستیوں کو |
نظارے ہو بھی جائیں شرمگیں کچھ |
نئے منظر بدلتے رُت ہیں شیدؔا |
پرانے زخم ہی ہیں ہم نشیں کچھ |
۔ ۔۔۔۔ *علی شیدؔا*۔۔۔۔۔ |
معلومات