ایک ترا ہی ذکر ہے میرے ہر ایک ذکر میں |
تیرا خیال بے کراں میرے حصارِ فکر میں |
تو جو خدائے عشق ہے صانعِ تاب حسن بھی |
کوئی نصابِ وصل رکھ میری کتاب ہجر میں |
فصلِ گماں پہ آگئے جیسے یقین کے گلاب |
زلف کو چھو کے ڈھل گئی بادِ صبا بھی عطر میں |
پھر سے اگر وہ حادثہ وقت گھمائے ہاتھ پر |
عشق لئےہے جاں بکف حسن کے شہرِ مصر میں |
درد کے سارے ہندسے آکے یہاں سمٹ گئے |
غم نے شمار کر لئے آنکھ کے تارے صفر میں |
خود سے کنارہ کش ہوا خود سے رکھا جو واسط |
یہ بھی خطائے خود سری وہ بھی حساب ِ کبر میں |
مجھ سے مرا جو مول ہے کوئی اگر تو پوچھ لے |
رقص گماں ہوں جا بجا عکس نما ہوں چتر میں |
معلومات