جانے کس دورِ فِتن کی رسم دہرائی گئی
عشق زادے کو قبائے خاک پہنائی گئی
اور کیا کارِ جنوں تھا رزم گاہے عشق میں
اک ہزیمت در بدر تھی ہم سے اپنائی گئی
ہجر کا موسم تھا سورج سات نیزے پہ تپاں
شاہ زادے کو حشیشِ دشت دکھلائی گئی
ہر نئی آواز پر شب خون ہی مارا گیا
ہر نئی پرواز کو زنجیر پہنائی گئی
ہجر کی سوغات تھی پہلی کہ رنگیں اشک تھے
چاندنی شب تھی لہو سے جیسے نہلائی گئی
گو بدن پر وقت کی تاریکیاں ہیں خیمہ زن
آنکھ سے کب قوت لیلائے بینائی گئی
رقص پھر کالی گھٹاؤں کا ہوا شیدؔا یہاں
سرخ چادر سر سے دوشیزہ کے سرکائی گئی
*علی شیدؔا*

0
62