کیا بتاؤں کہ کیا سمجھتا ہوں
آدمی ہوں خدا سمجھتا ہوں
تم سبب پوچھتے ہو رونے کا
میں ترا قہقہہ سمجھتا ہوں
کھول کر نقش دان کے دھاگے
ذرٗہ ذرّہ ذرا سمجھتا ہوں
جان جو جسم اوڑھے بیٹھی ہے
خود کسی کی قبا سمجھتا ہوں
بوند بن کر جو آنکھ سے ٹپکے
لب پہ آئی دعا سمجھتا ہوں
عمر ساری گزار کے آیا
دشت چھوٹا بڑا سمجھتا ہوں
یار شیدؔا تجھے کہاں بھولوں
ہم قفس، ہم نوا سمجھتا ہوں

0
46