یہ تقاضے بدل بھی جاتے ہیں
وقت کے آج کل بھی جاتے ہیں
اک دریچہ کھلا جو رہتا ہے
لوگ دل سے نکل بھی جاتے ہیں
درد رہتا ہے لڑکھڑانے کا
پاؤں جن کے سنبھل بھی جاتے ہیں
جن پہ موسم نیا نیا ہے کھلا
ان کے ارماں مچل بھی جاتے ہیں
ان پرانے ہوئے کھلونوں سے
بوڑھے بچے بہل بھی جاتے ہیں
کتنے صحرا تھے بجھ گئے ہونگے
کتنے دریا ہیں جل بھی جاتے ہیں
دل کے ماتم کدے میں کیوں شیدؔا
ہم جو اہلِ غزل بھی جاتے ہیں
*علی شیدؔا*

0
62