زندگی سے بھلا گلہ ہی سہی
موت سے پہلے تجربہ ہی سہی
وقت کے تھک گئے پڑاؤں کا
دور تک ایک سلسلہ ہی سہی
نقش آنکھوں میں ہے پڑا محفوظ
تیری تصویر گمشدہ ہی سہی
ہجر بھی تو ہے یادوں کا موسم
منقطع ان سے رابطہ ہی سہی
عشق سے جان چھوٹ جائے کیوں
دردِ پیہم کا ذائقہ ہی سہی
رہ نوردی کو کیوں زیاں سمجھوں
گرد آلودہ آبلہ ہی سہی
رات بھر ہم سے گفتگو جو کرے
تو نہیں تجھ سا آئینہ ہی سہی

0
59