غلطی سے ڈل جھیل کنارے مانجھن سے ٹکراو ہوا |
روح کا کچھ معلوم نہیں پر جسم سوارِ ناو ہوا |
یوں زرداب نگاہیں اسکی پڑتے ہی زریاب ہوئے |
کندن سے بھی کافی زیادہ پیتل دل کا بھاو ہوا |
فاصلہ جب تک بیچ میں تھا بس ہانپ رہا طوفان سا تھا |
پاس جو آئے ہم دونوں تو لہروں میں ٹھہراو ہوا |
لوگ ان ہی لمحات کو اکثر وصل کا موسم کہتے ہیں |
ہم نے اسے بھی ہجر میں رکھا غیروں سا برتاو ہوا |
اتنی گہری جھیل میں ٹھہرا اپنے فلک کا حصہ تھا |
پھر اک پل میں جیسے سارا منظر دشت الاؤ ہوا |
اس نے ایسے پھیر لیں نظریں جیسے دھوپ نے اوڑھی شام |
دور شفق پہ رنگ رمق کا وقت کے ہاتھوں کٹاو ہوا |
ایسی باتیں رہنے دیتے اب جو شؔیدا پوچھ لیا |
ورنہ کسی سے کب ہم کہتے دل میں کیسے گھاو ہوا |
معلومات