دشتِ جنوں میں چار سو گردِ دھمالِ عشق ہے |
حسن تماشہ بین ہے رقصِ سوالِ عشق ہے |
آگ کے سارے حوصلے توڑ کے گُل نے رکھ دئے |
وہ تو خرد کی بات تھی یہ تو کمالِ عشق ہے |
کوئی کتاب لا کے دے کوئی سخن کہ طے کرے |
کوئی نصاب جس میں اک حرف زوالِ عشق ہے |
میں بھی عجیب شخص ہوں خود سے نبرد آزما |
ماہِ فلک کو چوم لوں بس میں اچھالِ عشق ہے |
اپنا حریمِ ہجر ہے اپنا حصار وصل بھی |
اپنے غموں کی داستاں اپنا ملالِ عشق ہے |
دشت نورد قیس یا کُشتۂ ضربِ کوہکن |
عشق رقم طراز خود کاتبِ حالِ عشق ہے |
معلومات