*غزل*
دل کا اجڑا گھر بسا کر چل دئے
آئنہ خود کو دکھا کر چل دئے
گھر کے اندر اور کچھ ساماں نہ تھا
تیری تصویریں اٹھا کر چل دئے
کراس وے پر آنے والوں کے لئے
دائرہ دھندلا بنا کر چل دیے
کردیا رخصت بھی اپنے آپ کو
اک پتا اپنا بتا کر چل دئے
راہ یابی کا کوئی امکاں نہ تھا
راستے سارے ہٹا کر چل دئے
جوڑ کر پل پل کا رکھا تھا حساب
گن کے سارے خط جلا کر چل دئے
تر بہ تر تھا پیرہن شیدؔا ترا
سوزشِ جاں پہ سُکھا کر چل دئے

0
66