درد کو چارہ گر دئے ہم نے
زخم اوروں کے بھر دئے ہم نے
آگ اس نے ہوا سے باندھی تھی
شوق اس کا تھا گھر دئے ہم نے
بھول کر بھی وہ لوٹ کب آئے
جن پرندوں کو پر دئے ہم نے
دستِ قاتل کا نا بھرم ٹوٹے
اس تجاہل میں سر دئے ہم نے
نام ان کا ہوا زمانے میں
کام ایسے بھی کر دئے ہم نے
کرکے آباد رتجگے اپنے
نیند کو خواب گھر دئے ہم نے
بات اہلِ جنوں کی ہے شیدؔا
دشت کو دیدہ ور دئے ہم نے

0
44