اس بار ہمسفر بھی کوئی راستہ نہیں
اک آسماں ہے وہ بھی مرے کام کا نہیں
تا حدِّ آنکھ پھیلے سمندر کی بے رخی
کشتی نہیں ہے موج نہیں ناخدا نہیں
اتنے پڑاو ہم نے اچھالے کہ تھک گئے
رہنے دو کام جس کا کوئی فائدہ نہیں
لفظوں کے بانکپن میں معانی الجھ گئے
شاید ہمارے منہ میں رہا ذائقہ نہیں
کس سمت آکے خیرہ نظر کرتی روشنی
تھا درکِ شب گزیدہ کا روزن کھلا نہیں
موسم جو برف زاد خموشی کو توڑدے
شیدّا ترے شجر کو میسّر ہوا نہیں

0
43