*غزل* |
بات کوئی نہ تھی خلاصہ تھا |
اک ستارے پہ اک خرابہ تھا |
اک ہوا کے سپرد کر بیٹھے |
راستے میں پڑا لفافہ تھا |
جتنے ہندسے تھے خرچ کر ڈالے |
ہر خسارے میں اک اضافہ تھا |
ہجرمیں کھل گئے سبھی ابواب |
وصل میں ایک ہی حوالہ تھا |
کوئی آیا نہ کل عیادت کو |
آج بیمار کو افاقہ تھا |
قہقہے دیر تک تھے زخموں کے |
درد کا آخری تماشہ تھا |
ہم نے خود کو لٹا دیا شیؔدا |
اور تو کچھ نہیں اثاثہ تھا |
*علی شیؔدا* |
معلومات