راستے میں کئی راستے کھو گئے
آہٹیں چل پڑیں فاصلے کھو گئے
اس قدر بھی خسارہ اٹھانا پڑے
آنسؤں میں سبھی قہقہے کھو گئے
خارزاروں سے یوں بھی گزرنا پڑا
زخم رستے رہے آبلے کھو گئے
ایک ہی دھند میں کتنے موسم کھلے
زخم کچھ سوکھے تھے کچھ ہرے کھو گئے
جن میں ایہام کے عکس تھے ضو فشاں
ان کتابوں کے سب حاشئے کھو گئے
دھول لے کر اڑی زرد بن کی ہوا
دفن زندہ ہوئے ادھ مرے کھو گئے
چاندنی رات تھی اذن شؔیدا ملا
چاند کی سمت ہم چل پڑے کھو گئے

41