سرابِ دشت سے آگے نہیں کچھ
ہوا کچھ آگ یا پانی زمیں کچھ
بہت ساماں مرے گھر میں پڑا تھا
نظر آتا نہیں لیکن کہیں کچھ
اٹھا کر وقت شاید لے گیا ہو
کھلونا ساجو رکھا تھا وہیں کچھ
شکن زادوں سے سجدہ پوچھتا تھا
ملایم ہو گیا سنگِ جبیں کچھ
نمی پلکوں پہ ہونی ہے ضروری
کہ پہلو میں پڑا ہے آتشیں کچھ
اچھالیں کیا ابھی ان پستیوں کو
نظارے ہو بھی جائیں شرمگیں کچھ
نئے منظر بدلتے رُت ہیں شیدؔا
پرانے زخم ہی ہیں ہم نشیں کچھ
*علی شیدؔا*

0
76