رنگ و بو کے استعاروں سے سنواری ہے غزل
تیرے آنچل کی فضاؤں سے گزاری ہے غزل
چاندنی کو آئنے کے عکس میں رکھا گیا
دھوپ نے پھر ہم سے لکھوائی تمہاری ہے غزل
تیرا سایہ آ پڑا ہے سادہ رو قرطاس پر
ورنہ کب لفظوں سے ہوتی اتنی پیاری ہے غزل
آپ سے نظریں ہٹانے کا ہنر آتا نہیں
شب گزیں آنکھوں سے قطرہ قطرہ جاری ہے غزل
آ کے بھر دیتی ہے دامن وسعتِ آوارگی
اس بساطِ ہا و ہو پر روز ہاری ہے غزل
یا اتر آیا ہے موسم نیند پر برسات کا
یا ہوئی پھر خواب کی کھڑکی پہ طاری ہے غزل
تک رہی ہے چشمِ خامہ حسنِ جاناں کے نقوش
جیسے شہزادی کوئی چنچل کنواری ہے غزل
بوجھ ہلکا کیا کروں شیدؔا شعورِ آنکھ کا
رات بھر ڈھوتا رہوں پلکوں پہ بھاری ہے غزل
*علی شیدؔا*

0
45