منتظر آنکھوں کا دروازہ مقفل ہو گیا
شام ہوتے آخری منظر بھی اوجھل ہو گیا
وقت سے جانا بساطِ آرزو کی خستگی
کل پہ چھوڑا تھا جسے وہ آج بھی کل ہو گیا
ایک ہی آنسو تھا لا کر رکھ دیا قرطاس پر
ایک افسانہ ادھورا تھا ، مکمل ہو گیا
خواب دیکھا تھا ستی سر پر شعاعوں کا نزول
سرخ جس دن بارشوں میں کوئی آنچل ہو گیا
رقص جب کرنے لگے ہم شب کی تنہائی کے ساتھ
زخم کھُل کر مسکرائے ، درد پاگل ہو گیا
ابرِ غم کے آبلے پھوٹے ہیں پلکوں پر یہاں
ایک صحرا تھا مری آنکھوں میں جل تھل ہو گیا
عشق کی اس سادگی پر کیا علی شؔیدا کہیں !
مسئلہ تھا زندگی کا موت سے حل ہو گیا

0
14