ہم سے دیکھا ہی نہ جائے گا جہاں کا آئنہ
ہم نے پتھر سے تراشا خاک داں کا آئنہ
سب دلیلوں کی کتابیں بند الماری میں ہیں
آنکھ کی کھڑکی میں رکھا ہے گماں کا آئنہ
صورتیں ایسی کہ محوِ حیرتی دیوار و در
دشت زادے ہیں لئے بیٹھے کہاں کا آئنہ
کوئی آکے تو سمیٹے گا خلا کی وسعتیں
ہم زمیں زادے بھی دیکھیں آسماں کا آئنہ
اپنے چہرے پر ابھارا عکس ٹھہرائے کوئی
ہے تلاشِ آگہی میں جسم و جاں کا آئنہ
سمت کوئی بھی ٹھہر جائے کہانی کی طرح
ہم سے الجھا ہے شعورِ ایں و آں کا آئنہ
آہ کو شؔیدا رہائی دے نہ تارِ ضبط سے
ٹوٹ جائے گا نگاہے کہکشاں کا آئنہ

0
22