اے دشتِ غم کے میرے مسافر سفر اٹھا
قدموں کی آہٹیں ہیں پڑی در بدر اٹھا
اے ماہ رخ ہے تجھ پہ جو واجب زکواۃِ حسن
اک مستحق میں تیرے ہوں در پر نظر اٹھا
دونوں کے درمیان ہے تمثیل لا یحل
میں بھی' اگر" ہٹاؤں گا تو بھی "مگر" اٹھا
یک طرفہ اک سکوت کا منظر ہے دیدہ ریز
اے شورِ ناشنیدہ نیا شور و شر اٹھا
تو بھی عجیب شخص الجھتا ہے مات سے
نقطہ جو آس پاس ہے اے دیدہ ور اٹھا
تیرا جنون تابعِ منزل کہاں رہے
اے قیس، ریگزار میں دیوار و در اٹھا
شیدؔا کہ تیری پیاس میں آبِ حیات ہے
تو اپنے ساتھ اپنی نگاہے خضر اٹھا

0
43