اٹھائے جانا ہمیں راستہ ہے آگے تک
کوئی نہ ساتھ چلے دوسرا ہے آگے تک
کہاں یہ دشت نوردی تھکا ہمیں دے گی
ہمارے ساتھ جنوں کی دعا ہے آگے تک
بری خبر ہے سنائی جو اہل موسم نے
ملول یونہی چمن کی فضا ہے آگے تک
یہی کہ چاند ہے سورج، ستارے ساتھ چلیں
یہی کہ فرش زمیں کا بچھا ہے آگے تک
کسی بھی موڑ پہ شکوہ کریں کہاں ممکن
ہمارے ساتھ کسی کا خدا ہے آگے تک
ستم شعار زمانے کی ہے نظر ہم پر
غمِ دراز ترا سلسلہ ہے آگے تک
تمہارا زادِ سفر لاجواب ہے شیؔدا
چراغ دید کہ جلتا بجھا ہے آگے تک

0
37