درد آخر گھٹا دیا ہم نے |
زندگی کو بڑھا دیا ہم نے |
حسرتو ں کے پرانے آنگن سے |
دل کا لاشہ اٹھا دیا ہم نے |
ایک ہی خواب تھا کنارے پر |
آنسؤں میں بہا دیا ہم نے |
آخری چال پر تھے خالی ہاتھ |
پھر دیا ہی بجھا دیا ہم نے |
خشک سالی پڑی تھی آنکھوں میں |
دل کا دریا چڑھا دیا ہم نے |
موت کو زندگی کے بارے میں |
شعر اپنا سُنا دیا ہم نے |
ہوچُکا تھا گلوب گرد آلود |
آئنے پر گُھما دیا ہم نے |
آبگاہوں نے احتجاج کیا |
ایک پنچھی اُڑا دیا ہم نے |
شاہراہیں گزرنے والی تھیں |
چل کے رستہ بنادیا ہم نے |
دھوپ کو برف پہ اُترنا تھا |
بادلوں کو بچھا دیا ہم نے |
آخری پیڑ تھا وہ جنگل کا |
اور مل کر گرا دیا ہم نے |
تھک چکا تھا یہ جون کا سورج |
چاندنی میں سُلادیا ہم نے |
اس برس بھی دُعا کی بارش میں |
جسم اپنا جلا دیا ہم نے |
ایک سایہ ملا جو باہر تھا |
گھر میں لا کر گنوا دیا ہم نے |
اپنے گاؤں کی چھاؤں سے اُٹھ کر |
شہر تیرا بسا دیا ہم نے |
خواب کتنا طویل تھا اس بار |
خود کو کتنا جگا دیا ہم نے |
وصل کی بھوک کا گزارہ تھا |
ہجر میں غم کھلا دیا ہم نے |
پیاس میٹھی سی لب پہ آئی تھی |
ایک آنسو پلا دیا ہم نے |
گرتی دیوار تھی میاں جس کو |
حال اپنا بتا دیا ہم نے |
دشت اُبھرا ہے آنکھ میں شیداّ |
قرض کیسا چُکا دیا ہم نے |
معلومات