ترا خاموش جادو بولتا ہے
مرا ہی کب ارسطو بولتا ہے
تباہی کے وہی دو بول اکثر
شجر پہ آکے الو بولتا ہے
قلندر لے گیا تیری خموشی
یہاں اب میرا سادھو بولتا ہے
یہ دامن جھاڑ لوں ممکن نہیں ہے
اتر کے جس پہ آنسو بولتا ہے
ہمیں بھی کوئی سمجھائے شریفو
وہ میں میں یا کہ تو تو بولتا ہے
زباں بندی کے ہیں تازہ تقاضے
کہ منصف چُپ ہے ڈاکو بولتا ہے
تعجب ہے کہ شہرِ بے زباں میں
علی شیؔدا بھی اردو بولتا ہے

0
47