ہم ہی نے اشکوں کی لاج رکھ لی ہم ہی پہ ہنستا رہا زمانہ
ہم ہی سے مانگی گئی کہانی ہم ہی کو سُننا پڑا فسانہ
تمہارے موسم میں اور کیا ہے جو میرا موسم ادھار مانگے
یہاں بھی آنسو تھرک رہے ہیں وہاں بھی بارش کا ہے ترانہ
محبتوں کی حکایتوں کا نچوڑ آخر ہے دو ہی باتیں
قریب ان کے ہیں چاند تارے نصیب اپنا بے رایگانہ
تلاش ہم کو بھی تھی کسی کی کہاں جو فصل وصال آئے
طویل لمحوں کی فرقتوں کو مگر ملا تھا کوئی بہانہ
یہ کیسی بستی شکاریوں کی یہاں سے میرا گزر ہوا کیوں
جو زخم اپنا ہرا بھرا تھا اسی پہ باندھا گیا نشانہ
ابھی تو سارا دھواں پڑا ہے اداس حجرے کی بے بسی میں
ابھی تو لاوا سِسک رہا ہے ابھی نہ کھولا گیا دہانہ
نہ در سے تختی اتار ہی دی نہ اسمِ شیدؔا زباں پہ لایا
عجیب تھا وہ مرا مسافر بغیر میرے ہوا روانہ
*علی شیدؔا*

0
37