میں خود ہی درمیاں اک فاصلہ ہوں
سفر مشکل ہے لیکن چل پڑا ہوں
سمٹ آتا ہوں جیسے ہوں نہیں میں
بکھر جاتا ہوں جیسے جابجا ہوں
مجھے یوں آئنہ کیوں گھورتا ہے
میں شاید اور کوئی دوسرا ہوں
فشار ِ آگ پر کشتی ہے رکھی
ہوا کی زد پہ اپنا ناخدا ہوں
مسلسل چھارہے چہرے ہیں جیسے
مکرر خود سے تنہا ہو رہا ہوں
گزارو مجھ کو دشت آبلہ سے
کسی آہٹ سے پھوٹا راستہ ہوں
تحیر کی قبا اوڑھی ہے شیدؔا
رہینِ خیمہ گاہے لا بہ لا ہوں
علی شیدؔا

0
37