کب تک ریت نچوڑیں گے
آنکھیں اپنی پھوڑیں گے
ٹیڑھے میڑھے رستے ہیں
پاؤں کتنا موڑیں گے
پلکوں پر تو آنے دیں
تارے ہم بھی توڑیں کے
ہجر کا موسم ڈھل جائے
ہنسنا رونا چھوڑیں گے
عریانی کی بستی میں
ہم کیوں چادر اوڑھیں گے
کنگن بیچنے آئے ہیں
یعنی کلائی موڑیں گے
بوچھ ہے صدیوں کا شؔیدا
اگلے موڑ پہ چھوڑیں گے

0
5