ڈر گیا تو کیا ہوا
مر گیا تو کیا ہوا
مجھ کو جانا ہی نہ تھا
گر گیا تو کیا ہوا
اپنی پگڑی تھام لو
سر گیا تو کیا ہوا
کام کچھ بھی نا سہی
کر گیا تو کیا ہوا
ہجرتیں گزار کر
گھر گیا تو کیا ہوا
آنکھ میں اڑان ہے
پر گیا تو کیا ہوا
کھڑکیاں سنبھالئے
در گیا تو کیا ہوا
زخم ہے یہ روح تک
بھر گیا تو کیا ہوا

1
18
کمال است۔

0