زندگی! آج کھل کے کہتا ہوں |
تری چاہت سے ڈرتا رہتا ہوں |
کوئی ایسا عمل کہ ہو تُو سفل |
ان خیالوں میں روز بہتا ہوں |
رنج و راحت کا اِک مرکب تُو |
وقت بے وقت تجھ کو سہتا ہوں |
جستجو اور گفتگو کے درمیاں ہی عقل ہے |
ہاں مگر جب عشق ہو تو یہ توقّف قتل ہے |
آدمیت کی زباں میں دِل لگی بے اصل ہے |
ہاں مگر دِل کی لگی کو دِل لگی بھی وصل ہے |
آج بنجر دِل میں ہر سُو اُگ رہی اِک فصل ہے |
ہاں مگر اِسکا بھی باعث آنے والی نسل ہے |
رات مختصر |
بات مختصر |
عشق جب ہوا |
مات مختصر |
(مصدق اخوندزادہ) |
August 04, 2022. |