Circle Image

Engr. M. Musaddiq Iqbal Akhoondzada

@Akhoondzada

جو مِری قوم نے دو اِک خواب سنبھالے ہوتے
آج نہ خاک بہ سر یوں اس کے جیالے ہوتے
مرنا تھا شرم سے ہی آبا نے، ہے یہ یقیں مجھ کو
مسجد کے دروں پر جو لگے ہوئے تالے ہوتے
جد مِرے تو شمشیر بہ دست ہو جاتے تھے، سُن!
جب جب منصفوں کے کرتوت تھے کالے ہوتے

0
9
جو ہماری تھی آرزو کرتی
کاش ہم سے بھی گفتگو کرتی
ہر سُو خاموشیاں نہ چھا جاتیں
وِرد میرا جو خوش گُلو کرتی
کیوں نہ مہتاب سی ہمیں لگتی
روشنی تھی چہار سُو کرتی

14
گو سچ سب ہی کے رویّے سے یاں آشکار تھے
پر اہلِ چمن کے پاس نہیں اختیار تھے
جو آج اوڑھ کر رِدائیں یہ مائیں تھیں رو رہیں
وہ آنچل تھے بیٹیوں کے مگر تار تار تھے
وہ جن کے کہ داخلوں پہ بٹی تھیں مٹھائیاں
رے گھر والے ان کے سارے ہی اب سوگوار تھے

0
3
24
مجھے ڈستی ہے تنہائی مجھے خوابوں میں رہنے دو
نہیں جچتی یہ رعنائی مجھے خوابوں میں رہنے دو
آئے ہو جگانے مگر تم جان لو یہ ہمدم
ہو گی تِری رسوائی مجھے خوابوں میں رہنے دو
اجداد کے درجے میں نے سارے گنوا ڈالے
غیرت گو نہیں آئی مجھے خوابوں میں رہنے دو

0
9
دوام دکھ ہے تمام دکھ ہے
یہ لُولا لنگڑا نظام دکھ ہے
سجودِ ناحق ہیں عام، دکھ ہے
خودی بھی اب تک ہے خام، دکھ ہے
تُو کھا رہا ہے حرام، دکھ ہے
ڈلی نہ تجھ کو لگام، دکھ ہے

0
12
وہ دل میں بس گیا ہے تجھے اس سے پیار ہے
چاہے تُو یہ نہ مانے مگر آشکار ہے
وہ ایک شخص جس کی طلب ہی نہیں تھا تُو
بتلاؤ کیوں اسی کا تجھے انتظار ہے
وہ اِک نگاہ جو کہ تھی گھائل ہی کر گئی
اے دل تجھے ابھی بھی اسی کا خمار ہے

0
7
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
کچھ سنائیں تو کیا تماشا ہو
جیسے تم سب ہمیں ستاتے ہو
ہم ستائیں تو کیا تماشا ہو
ہم کو تم آزما لو پر جب ہم
آزمائیں تو کیا تماشا ہو

16
چڑھتے سورج کی مدارت زندگانی کا ہے کام
دیکھو یارو! ڈُوبتے کو کون کرتا ہے سلام
مردِ حُر کب ذیست و دوراں سے یاں گھبرائے گا
جذبۂِ ایمانی گر ہو تو نہیں رہتا غلام
نوجوانو! بات مانو راہِ حق چلنے کی ٹھانو
جہد ہے وہ بھی مسلسل کار ہائے نا تمام

0
6
حساب کیسا؟ نصاب کیسا؟
جو کر گزرنا تو خواب کیسا؟
سمندروں میں سراب کیسا؟
تو دشت اندر حباب کیسا؟
وفا وفا ہی کو سینچتی ہے
ہے بے وفائی میں تاب کیسا؟

4
28
جو پھر سے وفا کے دور چلیں
وہ پلٹ کے ہماری اور چلیں
بس اگلے موڑ سکون ہو گا
"چل زندگی تھوڑا اور چلیں"
رہنا خاموش قیامت تک
دنیا میں مچا کے شور چلیں

2
46
جانے مسمار اور کیا ہو گا؟
عدل بیمار اور کیا ہو گا؟
تجھ کو دِکھتی نہیں بھری سڑکیں
حرفِ انکار اور کیا ہو گا؟
حلف بردار گو وفا کا تھا
تجھ سا غدار اور کیا ہو گا؟

17
میں نے چاہت کو تشنگی لکھا
جو سمجھ آیا بس وہی لکھا
جب بھی ٹھکرا دیا گیا میں کبھی
اس کو اپنی ہی کچھ کمی لکھا
ڈر اسے آنسوؤں سے لاگے ہے
اس لیئے آنکھ کی نمی لکھا

0
14
کیسے کہہ دوں یہ ان کہی دل کی
دل میں جو رہتی ہے وہی دل کی
کانپ جاتی تھی درد سے اِس کے
روح نے بارہا سہی دل کی
لب کشائی کبھی بھی ہو نہ سکی
آرزو دل میں ہی رہی دل کی

15
میں یہ سوچوں کہ یہ کہا کیا ہے؟
تیرے لفظوں کا مدعا کیا ہے؟
جب سے تُو ہم نفس بنی میری
مجھ میں تجھ میں رہا جدا کیا ہے؟
مجھ کو بتلا کہ موجِ جیون میں
ناؤ کے بِِن یہ ناخدا کیا ہے؟

0
12
سنا دو داستاں سب کو مری تحقیر ہونے کی
وفا کر کے جفا سہنا مری تقدیر ہونے کی
سنا دو داستاں سب کو مرے تقسیم ہونے کی
سرِ بازار یاں رسوا مری تحریم ہونے کی
سنا دو داستاں سب کو مری تذلیل ہونے کی
مرے ایوان کی ہر اِک سبھا تحلیل ہونے کی

2
25
دکھائی دیتی ہے منزل مگر منزل نہیں ہے یہ
جنون و عشق کے ہرگز ہی اب قابل نہیں ہے یہ
نہیں ہوتا ہے کچھ بھی یاں محل تعمیر کرنے سے
قسم کھا کر کہو جو عشق کی قاتل نہیں ہے یہ
یہ فانی ہے لا یعنی ہے ادھُوری سی کہانی ہے
وفاؤں سے تری ہونی کبھی حاصل نہیں ہے یہ

21
دمِ رخصت وہ گویا ہوا کچھ یوں
"ہو تم ہی سب مرے ہم مذہب کیوں"
سمجھ پایا نہ میں وہ جو کہتا تھا
"بروزِ حشر میں مدعی تو ہوں"

0
13
عجیب وسوسے نے مجھ کو آن گھیرا ہے
جو شخص میرا نہیں کیسے پھر وہ تیرا ہے
سوال ایک ہی ہے یاں ہمیشہ پیشِ نظر
جو رات ڈھلتی نہیں آنا کب سویرا ہے
مِرا خمیر ہے حق، غیرت و حیا والا
مرے مزاج کا بس آسماں بسیرا ہے

0
25
گرچہ تحقیق ہی ہوتی ہے اشاعت کا وقار
ہاں مگر جملوں کی رنگینی سے آتا ہے نکھار
لفظ جو لے میں ہوں تو تان بنا دیتے ہیں
خطِ سائنس کا دیوان بنا دیتے ہیں
موسقی بن کے برستے ہیں جب اعداد و شمار
عامیوں کو بھی پھر آ جاتا ہے تکنیک پہ پیار

0
28
ہوا اعلان ہے یہ آج ہم سب گھر پہ بیٹھیں گے
نہیں غیرت رہی ہم میں سو ہم لنگر پہ بیٹھیں گے
ہمیں لگتی نہیں اچھی کمائی اپنی محنت کی
بہت ہیں تھک چکے کل سے تمہارے در پہ بیٹھیں گے
یہ بھی بتلانا ہے مقصود دنیا بھر کے لوگوں کو
کہ ہم ہیں نام کے مسلم، درِ مندر پہ بیٹھیں گے

0
23
ہمیں پوچھا تھا کتنی ہے
وفائے زیست جتنی ہے
انا اپنی مٹا ڈالوں
محبت تم سے اِتنی ہے

0
22
مجھے تکلیف ہوتی ہے جو دیکھوں ان کو ایسے میں
کسی کی آبرو وہ ہیں کہوں یہ ان سے کیسے میں
میں نوحہ گر ہوں جس شے کا اسے کہتے حیا تھے سب
یہ وہ شے تھی جو پہناتی سبھی کو اک رِدا تھی تب
رِدا جو ڈھانپ کر رکھتی وجودِ زن کو اکثر تھی
کہ جس کے ہونے سے غیرت بھی ہر گھر کو میسر تھی

0
42
تیغِ خودی کو اب تو آ بے نیام کر لیں
لب ہائے خشک تک آ غیرت کا جام کر لیں
رہبر ہمارے گرچہ ہیں زر خرید اُن کے
مشکل نہ ہو جو سب کو ہم زیرِ دام کر لیں
برسوں سے بیٹھے بیٹھے دفتر اجاڑ ڈالے
آ اٹھ کے چل کبھی تو تھوڑا سا کام کر لیں

0
50
جی نہ بھرتا جب تھے میلا دیکھتے
بار ہا ایک ایک ٹھیلا دیکھتے
بچپنا تھا بانکپن کی موج میں
لوگ تھے گو اُس کا ریلا دیکھتے
ہاں مگر وہ ایک ہستی تھی جسے
بھول کر ہر اِک جھمیلا دیکھتے

0
19
یہ اِک حرفی جو الف ہے یارو اس کو ہم تو نہ سمجھے اب تک
تم پوچھو لفظوں کے مطلب جانے واں پہنچیں گے کب تک
جیون بیتا جائے ہے لیکن ہم کو ناچ نچائے ہے ہر پل
کیونکر ہو اس زیست میں ظلمت ہم اور آپ جلیں گے جب تک

0
25
گو دل میں جوانی سا دم دیکھتے ہیں
مگر اب کے نظروں سے کم دیکھتے ہیں
تمہیں جو دِکھا اِک نظر سے تھا ظاہر
ہے شیوہ کہ باطن کو ہم دیکھتے ہیں
گو یاروں نے چھوڑا ہے بنجر سمجھ کر
یہ مٹی ہم اب بھی تو نَم دیکھتے ہیں

0
37
من کی پٹاری کے کیا کہنے
یادوں کے ناگ لیئے پھرتی ہے
یاد جو اکثر ڈس لیتی ہے
دِل کو جکڑ کر کس لیتی ہے
من کی پٹاری کے کیا کہنے
جس میں یاس کی آس لیئے ہم

0
25
افطار ہو کہ سحری ہو آنا محال ہے
بیگم سے پوچھ کر نہ چلیں کیا مجال ہے
ڈرنا تو شوہروں کے لیئے حادثہ نہیں
بیگم کی ڈانٹ کھا کے ہی جینا کمال ہے
ساقی تُو سب ہی بات بزرگوں کی مانا کر
تجھ سے جو شادی کا کہے سمجھو کہ چال ہے

0
26
دیوانوں کی محفل میں اک دیوانہ سا میں بھی ہوں
انجانوں کی محفل میں اک انجانا سا میں بھی ہوں
سننے کو جس کے آیا ہوں تکنے کو جس کے آیا ہوں
اس بیگانی سی ہستی سے بیگانہ سا میں بھی ہوں
وہ چنچل سی جو ہستی ہے اس میں مستی ہی مستی ہے
اس مستی کو دیکھ سو دیکھ اک مستانہ سا میں بھی ہوں

0
39
وہاں پر زندگی ناچے یہاں پر موت رقصاں ہے
یہودی ہو کہ ہندو ہو سبھی کی سوچ یکساں ہے
لبادے اوڑھ کر حق کے جو خادم بن کے بیٹھے ہیں
کوئی بتلائے تو ان کو کہ یہ سب ان کا نقصاں ہے
نچھاور مال کرنا ہے فِدا یہ جان کرنی ہے
مجاہد بننا مشکل ہے گو کہلانا تو آساں ہے

0
41
وطن کے نام پر یارو! یہ کاروبار لگتا ہے
اڑا ہو حق پہ کوئی بھی وہی غدار لگتا ہے
بہت سریا ہے گردن میں سبھی کچھ روند ڈالے گا
وہ اپنی قوم کی افواج کا سردار لگتا ہے
جو میں نے پوچھا اس دل سے کہ کیا اب صبر آیا ہے
جواباً بولتا ہے ہاں مگر انکار لگتا ہے

29
دیکھو!
جو ولی بن بیٹھے ہو ہمرے
تو غیرت نام کی اِک شے
سے تھوڑا کام ہی لے لو
ہے گرچہ فرض تم پر کہ
مجاہد بن کے چڑھ دوڑو

0
25
کریں گے ہم محبت اب کے کس منہ سے
کہیں گے ہے اخوت اب کے کس منہ سے
بچے امت کے تو روتے بلکتے ہیں
رکھیں پھر کوئی قوت اب کے کس منہ سے

0
24
تِرے گھر میں جو آئے گی وہ اردو بولنے والی
سلیقے سے فضاؤں میں ہے خوشبو گھولنے والی
تِرا جیون سنوارے گی کٹھن ہو زندگی جتنی
بہت مشکل سے لیکن ہے لبوں کو کھولنے والی
دلاسہ تجھ کو دینا ہے یا تجھ کو تھام لینا ہے
نزاکت سے مگر پیارے مواقع تولنے والی

0
25
انکل توں ہونڑ بابے ہو گئے آں
تاں ہی تے بیٹھے بیٹھے سو گئے آں
او وی سن ویلے مستی تے میلے
ہونڑ تے بس یاداں وچ کھو گئے آں

0
30
زیست اک دشت ہے اور ہے جاں بہ لب
پھر بھی کمبخت دل کو جہاں کی طلب
گیسوئے جانِ جاں اور رخِ دلبراں
اب مجازی ہوا جو حقیقی ادب

0
48
یہ جو جھکنے کی ہم کو عادت ہے
ہم کو لاگے کہ یہ عبادت ہے
منہ پہ ہیں تھوک دیتے پیر اپنے
ہم سمجھتے ہیں یہ سعادت ہے
جن کو غیرت سے کوئی کام نہیں
ان کے ہاتھوں میں ہی قیادت ہے

0
18
شاعری اِک ربط ہے
پر جو اُن کو خبط ہے
اُس نے مشکل کر دیا
کب سے کیا جو ضبط ہے

0
38
جو میرے آستاں ہو گی، محبت داستاں ہو گی
جو ہے رنگینیِٔ جیون، عطاءِ دوستاں ہو گی
اگرچہ ہوتی ہے الجھن ہمیں ہر ایک بدبُو سے
ہو محنت کے پسینے کی، تو بُوئے گُل ستاں ہو گی
مزہ آئے گا بت گر کو، بتوں کے پاش ہونے کا
خلیل اللہ کے ہاتھوں میں، جو تقدیرِ بُتاں ہو گی

0
52
بن کے دستِ فتنہ گر
ہم پہ تُو جفا نہ کر
پہلے بھی تو ہوتے تھے
تھے مگر وہ معتبر
تیرا میرا ربط تھا
اس کی بھی نہ کی قدر

0
48
مجھے تو آخرت اپنی ابھی بھاری نہیں کرنی
ضرورت چاہے جتنی ہو خطا کاری نہیں کرنی
لہو ہی گر میسّر ہو گُلوں میں رنگ بھرنے کو
تو ایسے میں ہمیں کوئی بھی گُل کاری نہیں کرنی
کبھی اترن پہ لپکے ہے کبھی چلمن کو ترسے ہے
جسے کہتے ہیں خدمت لوگ سرکاری نہیں کرنی

0
29
اجڑے سے وطن کا تُو نہ اب بین کیا کر
حالات کہ جیسے بھی ہوں تُو کھل کے جیا کر
جو جان نچھاور کیا کرتے تھے وہی لوگ
غدار تجھے کہہ گئے نیت تِری پا کر
جس کو تھا مقرر کیا حفظانِ وطن پر
وہ شخص ہے للکارتا اب سامنے آ کر

0
34
جستجو کی لو پر جب آگہی دہکتی ہے
خاکسار بندے کی گفتگو مہکتی ہے
نفس ابنِ آدم کا جسم و جاں پہ حاوی ہے
دل نے کیا دھڑکنا ہے آرزو دھڑکتی ہے
ہم نے حال دنیا کا اس قدر بگاڑا ہے
زندگی کو دیکھے تو موت بھی سسکتی ہے

0
57
دلوں میں لیئے ہم جو انگار ہیں
بگڑتی ہوئی قومِ بیمار ہیں
کہ ہم اپنے ہی خوں سے رنگی ہوئی
لیئے ہاتھ میں ایک تلوار ہیں
زمانہ نچاتا ہے ہر پل ہمیں
گو خود کو سمجھتے تو فنکار ہیں

56
لے کے جو دی آزادی تو دنیا ہوئی حیران
اے قائدِ اعظم نہ تھے ہم قابلِ احسان
ہر سمت ہے امت پر یوں چھائی تباہی
ملک اپنا ہے اور غیر کے ہاتھوں میں ہے شاہی
ڈھونڈے سے نہ ملتا ہے اب دیں کا سپاہی
کیا نعرہ تکبیر سے کوئی ہو گواہی

44
جو تیرا شاعرانہ انداز ہو گیا ہے
یہ لاگے عاشقی کا آغاز ہو گیا ہے
جب سے یہ دِل ہی دِل کا غماز ہو گیا ہے
تب سے یہ مطمئن اور بے آز ہو گیا ہے
گو دُور تجھ سے لیکن وہ ہے قریب تیرے
وہ ہمنشیں سے پہلے ہمراز ہو گیا ہے

92
تجھ کو پانے کی جستجو کر کے
خود کو کھویا، یہ آرزو کر کے
جانے کب؟ پر یاد ہے اتنا
کچھ تو ہوتا تھا رنگ و بُو کر کے
آ، صیاد تِرا دکھلاؤں
آئینہ تیرے رُو برو کر کے

49
ہماری الفت نئی نئی ہے
کہ دل کی رقت نئی نئی ہے
یہ جاں گنوا دوں اگن لگا دوں
وفا کی شدّت نئی نئی ہے
بہت ہے پھیلا غبار ہر سُو
نظر کی دقّت نئی نئی ہے

65
ہو پوچھتے، یاں پر کوئی خود نہیں لکھتا؟
کچھ ایسا ہی تھا ورنہ ختم شُد نہیں لکھتا
لکھتے تو سبھی خود ہیں لیکن یہ ستم ہے
محفل میں یہاں کوئی بے خود نہیں لکھتا

0
46
تم کتابوں کی بات کرتے ہو؟
یا کہ بابوں کی بات کرتے ہو؟
علم کی روشنی سے ڈرتے ہو
آفتابوں کی بات کرتے ہو
پوچھتے تم کوئی سوال نہیں
اور جوابوں کی بات کرتے ہو

3
87
اب کے، کسی قابل ہی کب ہیں
سرکش و خود سر، ہم بے ادب ہیں
کہتے ہیں ہم میں جنوں کی کمی ہے
ہم جو کہ خاموش ان کے سبب ہیں
تھا کبھی ہم کو بھی خمارِ جاں
قصۂِ پارینہ زیست اب ہیں

28
کچھ نہ مجھ سے کہو، میری سنتے رہو
جن کی تعبیر میں، خواب بنتے رہو
مجھ سے کہتی تھی یہ، وہ مِری ہمنشیں
خار رہ کے مِرے تم ہی چنتے رہو
میں نے پوچھا مگر کیسے ممکن یہ ہے
بس میں کرتا رہوں جو تُو کہتی رہے

1
82
بکھرے ہوئے ہیں لاشوں کے ٹکڑے سمیٹ دے
سردی سے اب تو جسم بھی اکڑے سمیٹ دے
مرجھا رہے ہیں پھول سے مکھڑے سمیٹ دے
یا رب تُو میری قوم کے دکھڑے سمیٹ دے
وہ غفلتیں جو ہم کو ہیں جکڑے سمیٹ دے
وہ لغزشیں جو دل کو ہیں پکڑے سمیٹ دے

48
میں کہ خود گزیدہ ہوں مجھ سے کام مت رکھیو
محفلوں میں میرا اب اہتمام مت رکھیو
زہر کو سمجھ کر قند کب کا پی چکا ہوں میں
میرے آگے اب کوئی مے کا جام مت رکھیو
موت سے نہ ڈرتا تھا وہ جو مر چکا ہے اب
کہہ گیا تھا جیون کو میرے نام مت رکھیو

1
76
الزام تِری ذات پہ بے لاگ لگا دوں
اے زندگی آ تجھ کو ابھی آگ لگا دوں
چھونے نہیں دے گی تو رسوا ہی رہے گی
آ اب تجھے چُھو لُوں میں تِرے بھاگ لگا دوں
یہ کہہ کے وہ اک شخص مجھے لُوٹ گیا تھا
سمجھو کہ دل اندر سے بہت ٹُوٹ گیا تھا

67
کبھی عشق تجھ کو بھی جو ہوا
تو سمجھنا مجھ کو ہے وہ ہوا
مِرے حال کا مِری چال کا
کبھی اعتبار کہو ہوا؟

48
اب کے مل بیٹھ کے کہنے کو کہانی نہ رہی
اب ہے سب ہیچ، تخیّل کی روانی نہ رہی
مجھ سے کہتا ہے مِرا جسم جو دوڑوں میں کبھی
ہوں مجسم مگر اب مجھ میں جوانی نہ رہی
ہم کو تھی آگہی مطلوب پر اتنی بھی نہیں
اب ہیں خاموش کہ وہ شعلہ بیانی نہ رہی

44
زندگی تُو نے سکھائے زخم سینے کے سلیقے
دردِ دل کو چھوڑ کر بغض اور کینے کے سلیقے
زندگی تُو نے بکھیرے رنگ جتنے سب ہیں پھیکے
اب کے ہم نے ہیں بدلنے تجھ کو جینے کے سلیقے
اِس نظر میں مے اہم ہے باقی سب ہے ثانوی یاں
مے کدہ اور ساقی چننے، جام پینے کے سلیقے

41
نہیں برا ہے یہ دیس اپنا، ہیں بس برے سے یہ لوگ اس میں
کسی کو لالچ کسی کو طاقت، کہ سب کو لاحق ہیں روگ اس میں
ہے جو بھی اٹھتا وطن کی خاطر مٹائے جاتے ہیں اس کو شاطر
عجب ادا ہے عوام کی یاں، منائے جاتے ہیں سوگ اس میں
نہیں جُھکوں گا کھڑا رہوں گا، بنائے حق پر اڑا رہوں گا
وہ ہر نظر سے ہی گر گیا ہے، لیئے ہیں جس نے یہ جوگ اس میں

56
در در یہاں جھکتے ہیں سر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں
بِکتے یہاں ہیں بام و دَر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں
جِس خاک کی خاطر ہوئے تھے لوگ سارے دَر بہ دَر
غیر آ بسے اُس خاک پر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں
جو مِیر تھے سردار تھے، نواب تھے یا خان تھے
مغلوب اب آئیں نظر، بِکتی یہاں ہیں پگڑیاں

85
یہ جو نامعلوم تھے
ہم کو سب معلوم تھے
جتنی دہشتگردی تھی
ان کی ہی نامردی تھی
اب جو اپنا حال ہے
یہ بھی ان کی چال ہے

52
اسی دھرتی کا باسی ہوں
مگر شاید میں باسی ہوں
میں گرچہ عام شہری ہوں
انہیں دِکھتا میں عاصی ہوں
نظر میں ہر ادارے کے
میں بگٹی ہوں میں کاسی ہوں

60
مرے رب تو بس اب مٹا دے ہمیں
کہ دھرتی کے سینے پہ ہم بوجھ ہیں
جو جیون بچا ہے گھٹا دے اسے
کہ سینوں میں سانسیں بہم بوجھ ہیں
نہ آتا ہے جینا نہ مر پاتے ہیں
ہم اپنے ہی چہروں سے ڈر جاتے ہیں

84
اگر آدمیت گوارا کرے
میں لکھ کر بتاؤں حقائق تمھیں
میں تم کو بتاؤں کہ معصوم کو
شتر دوڑ میں کیوں بھگایا کریں
خبر تجھ کو یہ بھی میں دیتا چلوں
کیوں اپنوں پہ ٹوکا چلایا کریں

78
کوئی ایسی دل میں تُو یاس لے
مری کج جبیں کو شناس لے
تجھے رشک آئے گا خود پہ ہی
کبھی مجھ سی دل میں تُو آس لے
تجھے کربلا کا ہو تجربہ
مرے خشک ہونٹوں کی پیاس لے

2
62
یہ جو مرتے مرتے ہے کٹ رہی، اسے زندگی کا خطاب دو
ابھی ظلم اور بھی کر چلو، غمِ عاشقی کا عذاب دو
جو کہ عقل و فہم کرے عطاء، نہ قوم کو وہ نِصاب دو
اجی طاق میں ہی سجا رکھو، مِرے ہاتھ میں نہ کتاب دو
تُو نے دُکھ دیا تو گِلا نہیں، مجھے سُکھ کبھی بھی مِلا نہیں
تِری دشمنی سے نہیں غرض، مجھے دوستی کا حساب دو

1
86
ترے پیار کا جو خمار ہے
مری ذات کا وہ وقار ہے
میں کہ جس میں ڈوبا تمام تر
ترے رت جگوں کا ادھار ہے
وہ تری نگاہِ شکوہ گر
وہی مجھ میں لائی سدھار ہے

1
74
کمپنی کا مال ہے
بس نِرا وبال ہے
کمپنی سے کہہ دو یہ
کچرا بے مثال ہے
خوف کتنا بانٹو گے؟
تجھ سے یہ سوال ہے

115
مِری ناموس پر نظر اُس کی
اور کرتا رہوں قدر اُس کی؟
عصمتیں بیچ کر وطن بھر کی
عیش میں زندگی بسر اُس کی
تھا جو معمور بس حفاظت پر
ہے سمجھتا کہ ہر ڈگر اُس کی

1
84
اب نشے سے، مے کے، رِندو! خود کو بہلانا غلط
جو حقیقت ہے اُسے قصداً یوں جھٹلانا غلط
یاد پر بھی حق ہے تو ہے بس اُسی حق ذات کا
یاد کی خاطر بھی اب تصویر بنوانا غلط
ساز کیا ہے؟ سوز کیا ہے؟ میں نہیں یہ جانتا
موسقی شامل ہو، ایسی حمد پڑھوانا غلط

63
دو لفظوں سے جب کاغذ پر تحریر کوئی بن جاتی ہے
یادوں میں مِری جوں چاہ بھری تصویر کوئی بن جاتی ہے
جن خوابوں سے اکثر ہم کو اِک الجھن سی ہو جاتی ہے
اکثر ایسے ہی خوابوں کی تعبیر کوئی بن جاتی ہے
جو آج سے اکثر لڑتے ہیں کل کی خاطر جو جھگڑتے ہیں
ان لوگوں کی اس جیون میں تقدیر کوئی بن جاتی ہے

66
آخری نظم کا آخری شعر ہے
ہاں اسی بزم کا آخری شعر ہے
ہے ارادہ کیا آخری شعر ہے
اب بجھا دو دیا آخری شعر ہے
تم ہوئے پُر سکوں آخری شعر ہے
شکر میں بھی کروں آخری شعر ہے

85
ہم کو چل ہی گیا فیصلوں کا پتہ
شب کی تاریک سی محفلوں کا پتہ
جن کے ہونے سے ہم کو بھی تھا حوصلہ
کوئی دے ہم کو ان عادِلوں کا پتہ
تھے پہاڑوں سے اونچے جو ہوتے کبھی
اب نہیں مل رہا حوصلوں کا پتہ

2
108
ہم بھی آنسو بہا رہے ہیں
جانے کیوں ہم بتا رہے ہیں
گرچہ عادت تھی سہتے رہنا
مگر اب ڈگمگا رہے ہیں
بابا جانی مجھے، ہاں میرے
اب بہت یاد آ رہے ہیں

2
88
چند حرفی سے لکھے یہ اشعار
داستانِ عمر ہوتے ہیں یار

1
69
یاد آ رہے بابا آج بہت
ان سے ہی تھی گھر کی لاج بہت
حق اور اصول نہ چھوڑے کبھی
ٹھکرائے تخت و تاج بہت
ان جیسا فوجی نہ دیکھا کوئی
گو دیکھی ہیں افواج بہت

59
دل میں پیار جو بھر جائے
چہرہ خود ہی نکھر جائے
آ مِرے دِل میں سِمٹ جا تُو
یہ نہ ہو اب کے تُو بِکھر جائے
پریت دِل میں بسی ہو تو
دِل دِل سے پھر اُدھر جائے

3
104
ہم اگر، ناکام ہیں تو، کام ہی اب، چھوڑ دیں؟
دل جو ٹوٹا، ہے ہمارا، سب کا دل ہی، توڑ دیں؟
یہ ہوائیں، جو اڑا کر، لے گئی ہیں، ہر خوشی
آ اے ہمدم، کیوں نہ ہم تم، رُخ ہوا کا، موڑ دیں؟

53
ہم نے خود کوکبھی ماضی سے نکالا بھی نہیں
اور کوئی خواب حقیقت میں تو ڈھالا بھی نہیں
اب کے گلتی ہی نہیں دال تو پھر کیا کیجئے
دھل چکے ایسے کہ اب دال میں کالا بھی نہیں
تیری چایت نے لگائے ہیں مسلسل چیرے
ہم نے زخموں کو کبھی شوق سے پالا بھی نہیں

79
مجھ کو غبارِ راہ یا راہوں کی گرد کہہ
اتنا سا کر کرم، نہ تُو صحرا نورد کہہ
ہو گر طلب تِری، جلا ڈالوں گا خود کو میں
اِک بار آ کے کان میں "موسم ہے سرد" کہہ
میں اپنا درد بھول کے، درماں بنوں تِرا
"آنگن کی آگ کا ہے بہت مجھ کو درد" کہہ

84
زندگی! آج کھل کے کہتا ہوں
تری چاہت سے ڈرتا رہتا ہوں
کوئی ایسا عمل کہ ہو تُو سفل
ان خیالوں میں روز بہتا ہوں
رنج و راحت کا اِک مرکب تُو
وقت بے وقت تجھ کو سہتا ہوں

78
محبت میں تیرے جو میں تشنہ لب تھا
یہی مسئلہ تھا یہی حل طلب تھا
وہ ہونٹوں پہ تیرے جو ہوتی ہنسی تھی
یہ رونا رلانا اسی کے سبب تھا
تھا مغرور اتنا کہ سمجھو تھا فتنہ
عقیدت کی محفل میں میں بے ادب تھا

101
جستجو اور گفتگو کے درمیاں ہی عقل ہے
ہاں مگر جب عشق ہو تو یہ توقّف قتل ہے
آدمیت کی زباں میں دِل لگی بے اصل ہے
ہاں مگر دِل کی لگی کو دِل لگی بھی وصل ہے
آج بنجر دِل میں ہر سُو اُگ رہی اِک فصل ہے
ہاں مگر اِسکا بھی باعث آنے والی نسل ہے

87
اب بھی خود سے ڈرتے ہو؟
اور جیون پر مرتے ہو؟
خود کو بنانے کی خاطر
جانے کیا کیا کرتے ہو
جس نے تجھ کو لُوٹا ہے
اس کا دم تم بھرتے ہو

75
جب سے پیروں میں ہیں ہمرے یہ چھالے نکلے
رہبری کیا، ہم قافلے سے بھی نکالے نکلے
مجھ آشفتہ کے پامال کیے جانے کو
خشت و سنگ کیا، یاں ہاتھوں میں بھالے نکلے
ہم تو سمجھے تھے، ہم ہی اندھے ہیں جہاں میں
پر ہم سے بڑھ کر، ہمیں چاہنے والے نکلے

78
ہم جو شرق کے باسی ہیں
سو اقدار کے باسی ہیں
لو مغرب کی نظر میں اب
ہم قدامتاً عاصی ہیں

0
99
دھن دولت کے ہیں یار بہت
ہم کو بس تیرا پیار بہت
کیا رشتے وہ درکار بہت؟
جو لالچ کے بیمار بہت
رحمٰنؔ کا یہ پرچار بہت
ہو یار کے سنگ مزار، بہت

5
136
جو کبھی صاحبِ افکار نہیں ہو سکتا
وہ کسی قوم کا معمار نہیں ہو سکتا
جو کبھی عشق سے دو چار نہیں ہو سکتا
وہ کبھی صاحبِ دستار نہیں ہو سکتا
گو کہ وہ اتنا بھی غدّار نہیں ہو سکتا
ہاں مگر چور وفادار نہیں ہو سکتا

147
رات مختصر
بات مختصر
عشق جب ہوا
مات مختصر
(مصدق اخوندزادہ)
August 04, 2022.

90
محبت میں تیری جو میں تشنہ لب تھا
یہی مسئلہ تھا، یہی حل طلب تھا

130
ہے خاک نشیں اور خاک بدن
پھر خاکی کا کیا چُھونا گگن
لمحوں میں ہم نے گَنوائی ہے
عزت، شہرت، دستارِ کُہن
جو دیس بچانے نکلے تھے
اب بَیچَت ہیں وہ جنابِ مَن

111
خاموشی اب توڑنا مشکل
اب خود کو جھنجوڑنا مشکل
ان کی یادیں ہیں ہر سو ہر پل
یادوں سے منہ موڑنا مشکل
اب کے دعا سے وہ رشتہ ہے
جس رشتے کو توڑنا مشکل

244