عجیب وسوسے نے مجھ کو آن گھیرا ہے
جو شخص میرا نہیں کیسے پھر وہ تیرا ہے
سوال ایک ہی ہے یاں ہمیشہ پیشِ نظر
جو رات ڈھلتی نہیں آنا کب سویرا ہے
مِرا خمیر ہے حق، غیرت و حیا والا
مرے مزاج کا بس آسماں بسیرا ہے
چلو کہ کھودنے نکلیں بڑی بڑی قبریں
مِرے وطن کو بڑے قاتلوں نے گھیرا ہے
مجھے گمان رہا یاں مِری سنے گا کوئی
قرارداد میں لکھا تھا ملک میرا ہے
سنا ہے رات میں وہ خامشی سے جاں ہارا
کہ مارا جس نے اُسے اُس کا ہی چچیرا ہے
لگائی آگ کسی سر پِھرے نے خود کو ہی
وہ کہہ رہا تھا ختم ہونا یوں اندھیرا ہے

0
17