دشتِ دوراں کے سرابوں کی سِتم خیز ادا
ہم کو ہم دِکھتے تو ہیں پر نہ سنیں اپنی صدا
ہم نے بولا تھا ناں، تم سے، کہ یہ تحریمِ جنوں
جان لے لے گی مِری، تم جو کبھی ہو گے جدا
ہائے دنیا تجھے دل میں تو بسانا ہے خطا
کون جی پایا ہے یاں ہو کے کبھی تجھ پہ فِدا
صنفِ نازک نے جو مردِانِ وفا تھے مانگے
تو غرض یہ تھی کہ وہ تھامے تو اوڑھا دے رِدا
ہم نہ کہتے تھے مصدِّق کبھی منہ پھیر زرا
آج در پر ہیں کھڑے بن کے کئیں تیرے گدا

0
9