وطن کے نام پر یارو! یہ کاروبار لگتا ہے |
اڑا ہو حق پہ کوئی بھی وہی غدار لگتا ہے |
بہت سریا ہے گردن میں سبھی کچھ روند ڈالے گا |
وہ اپنی قوم کی افواج کا سردار لگتا ہے |
جو میں نے پوچھا اس دل سے کہ کیا اب صبر آیا ہے |
جواباً بولتا ہے ہاں مگر انکار لگتا ہے |
جو اُس کے طور ہیں یارو! وطن بدنام کرتے ہیں |
وفا کی راہ میں حائل وہ اِک دیوار لگتا ہے |
مٹاتا ہوں میں اس دل سے لگے ہیں داغ جتنے بھی |
مسلسل داغتا ہے دل ہمیں انگار لگتا ہے |
جو گزرے ہے بہن بیٹی، نگاہیں پیچھا کرتی ہیں |
مجھے بس اس بِنا پر وہ تو بد کردار لگتا ہے |
بپا ہے پھر وطن میں ایک طوفاں سا غلاظت کا |
مِری مانو مصدقؔ یہ عدُو کا وار لگتا ہے |
معلومات