دو لفظوں سے جب کاغذ پر تحریر کوئی بن جاتی ہے
یادوں میں مِری جوں چاہ بھری تصویر کوئی بن جاتی ہے
جن خوابوں سے اکثر ہم کو اِک الجھن سی ہو جاتی ہے
اکثر ایسے ہی خوابوں کی تعبیر کوئی بن جاتی ہے
جو آج سے اکثر لڑتے ہیں کل کی خاطر جو جھگڑتے ہیں
ان لوگوں کی اس جیون میں تقدیر کوئی بن جاتی ہے
باتیں جو دل کو بھا نہ سکیں اِس مَن میں پھر جو سما نہ سکیں
ایسی باتوں کے کہنے سے تقریر کوئی بن جاتی ہے؟
جب سوچ کے در وا ہوتے ہیں تو شب بھر لوگ نہ سوتے ہیں
یوں فہم و فراست ہی سے لکھی تفسیر کوئی بن جاتی ہے

66