گو سچ سب ہی کے رویّے سے یاں آشکار تھے
پر اہلِ چمن کے پاس نہیں اختیار تھے
جو آج اوڑھ کر رِدائیں یہ مائیں تھیں رو رہیں
وہ آنچل تھے بیٹیوں کے مگر تار تار تھے
وہ جن کے کہ داخلوں پہ بٹی تھیں مٹھائیاں
رے گھر والے ان کے سارے ہی اب سوگوار تھے
گو سب کچھ بدل چکا تھا مگر ایک بات تھی
کہ ظلم و ستم وطن میں مرے برقرار تھے
جو تم محفلوں میں شعر و سخن ڈھونڈتے رہے
وہ تنہائیوں میں لکھ چکے ہم شاہکار تھے

3
35
آپ نے شاید پچھلے تمام مراسلات حذف کر دیئے ہیں -
تو پھر میں اب کیا لکھوں ؟
شکریہ -

0
دراصل جب پہلا مصرع ہی تبدیل ہو گیا تو نئی اشاعت بنانی پڑی۔

آپ کی رائے کا انتظار دو تین دن کیا پھر پچھلی اشاعت ہٹا ڈالی کہ خواہ مخواہ ایک اضافی چیز تھی۔

آپ شوق سے لکھیئے کیونکہ نقاد ہی تو بہتری کی بنیاد ڈالتے ہیں۔

0
گو سچ سب ہی کے رویّے سے یاں آشکار تھے
پر اہلِ چمن کے پاس کہاں اختیار تھے

== یہ شعر بہتر تو نہ ہوا - دیکھیئے جیسے کہ میں نے عرض کیا تھا شاعری میں مفروضے نہیں بنائے جاتے - آپ خود سوچیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں سچ تو سب کے رویے ہی سے آشکار تھا مگر لوگوں کہ پاس کہاں اختیار تھا ؟ کس چیز کا اختیار ؟ آپ نے ایسی تو کوئی بات نہیں بتائی - اس کو سمجھنے کے لیئے کوئی مفروضہ بنانا پڑے گا ایسا شعر دو لخت کہلاتا ہے -

پھر اس میں اور دیکھیئے کہ وہی بات اہلَ چمن کہاں سے آگیا - اہلِ چمن کی اصطلاح کا کوئی سیاق و سباق ہوتا ہے - اس کے بغیر یہ بے معنیٰ بات ہوئ -

یہ بھی دیکھیں کہ آپ نے لکھا کہ "گو سچ سب ہی کے رویّے سے یاں آشکار تھے" سچ واحد لفظ ہے اور آپ نے لکھا ہے آشکار تھے - گرامر کے لحاظ سے اسے ہونا چاہیئے تھا آشکار تھا مگر یہ آپ کی ردیف نہیں اسے ضعفَ ردیف کا عیب کہتے ہیں - سچ کا لفظ جمع کے لیئے اگر استعمال کریں تو پھر جملے میں اسکے لیئے آپ کو امدادی الفاظ لکھنے ہوتے ہیں جیسے آپ کہیں سارے ہی سچ یہاں آشکار تھے -
آپ نے سچ لکھ کر اس سے پہلے سارے ہی لگا گر اسے جمع کے صیغے میں استعمال کیا - تب یہ درست ہوگا -

آگے بھی غزل کا ایسا ہی حال ہے - مجھے نہیں پتا آپ یہ سب سننا چاہتے بھی ہیں یا نہیں - لہذا پھر اسی پر اکتفا کرتا ہوں -