محبت میں تیرے جو میں تشنہ لب تھا
یہی مسئلہ تھا یہی حل طلب تھا
وہ ہونٹوں پہ تیرے جو ہوتی ہنسی تھی
یہ رونا رلانا اسی کے سبب تھا
تھا مغرور اتنا کہ سمجھو تھا فتنہ
عقیدت کی محفل میں میں بے ادب تھا
وہ موجِ غریبی یہ اوجِ امیری
حیاتِ گزشتہ سے انکار کب تھا؟
جسے لوگ تھے پیر و مرشد سمجھتے
اسیرِ صنم تھا، گنہگارِ رب تھا
وہ مجنوں جو صحرا میں بھٹکے تھا پھرتا
گماں ہے وہ الفت سے بیزار تب تھا
مِری لغزشوں کا سبب تو ہے شیطاں
مجھے یہ بتاؤ خطاکار کب تھا؟
خدا کے کرم سے جو پیدا ہوا تھا
اسی کو خدا سے ہی انکار اب تھا
وفا بے وفائی سے کرنے لگے ہم
ستم تُو نے ہم پر کیا یہ ہی جب تھا
بہت دیر سے جو غزل اِک پَھنسی تھی
یہ لفظوں کا پھندا اسی کا جلب تھا

105