جو تیرا شاعرانہ انداز ہو گیا ہے
یہ لاگے عاشقی کا آغاز ہو گیا ہے
جب سے یہ دِل ہی دِل کا غماز ہو گیا ہے
تب سے یہ مطمئن اور بے آز ہو گیا ہے
گو دُور تجھ سے لیکن وہ ہے قریب تیرے
وہ ہمنشیں سے پہلے ہمراز ہو گیا ہے
تال اور سُر ہی بخشے ہر اِک لے کو جو تیرے
اب موسقی میں شامل وہ ساز ہو گیا ہے
غمگین اس جہاں میں ذکرِ الم بھی کر لے
کیونکر تُو چاہتوں کی آواز ہو گیا ہے
اونچا نہ اُڑ سکا پر خواب و خیال میں تُو
کوہِ خودی پہ رہتا، اِک باز ہو گیا ہے
ہوں جان چکا اب کے ہے غم کی جو حقیقت
غمگین آج غم پر، یلماز ہو گیا ہے
ہر عاشقی کی حد ہے وہ واحد و احد ہے
جو مبتلا ہے اس کا، ممتاز ہو گیا ہے
اس کو گماں تھا جیسے محبوب ہے وہ میرا
جانا جو سچ تو بالکل ناراض ہو گیا ہے
اس کی طلب ہوں میں اور میری طلب خدا ہے
یہ عشق ہی مِرا اب اعجاز ہو گیا ہے
لگتا نہیں یہ مَن اب دنیا کے جھمیلوں میں
سمجھو کہ دل جہاں سے اب باز ہو گیا ہے
ظلم و ستم کی حد سے انسان بڑھ چکا ہے
لگتا ہے نظمِ دنیا ناساز ہو گیا ہے
تقویٰ رکھے جو دِل میں اور آنکھ میں حیا ہو
بندہ اسی بِنا، مایہ ناز ہو گیا ہے
قرطاس پر ہیں باتیں ہونٹوں پہ خامشی ہے
یوں ہر خیال محوِ پرواز ہو گیا ہے
جس کو کہ ڈھونڈتا تھا کب سے مِرا تخیّل
اس عکس کا مکمل پرداز ہو گیا ہے

92