جو مِری قوم نے دو اِک خواب سنبھالے ہوتے
آج نہ خاک بہ سر یوں اس کے جیالے ہوتے
مرنا تھا شرم سے ہی آبا نے، ہے یہ یقیں مجھ کو
مسجد کے دروں پر جو لگے ہوئے تالے ہوتے
جد مِرے تو شمشیر بہ دست ہو جاتے تھے، سُن!
جب جب منصفوں کے کرتوت تھے کالے ہوتے
آج یہ حال نہ ہوتا ہم جیسوں کا یارو!
ظالموں کے بر وقت جو تاج اچھالے ہوتے
تم نے دیکھا کبھی کچھ عام سا کرتے ہم کو
ہم سوں کے تو ہیں سب کام نرالے ہوتے
ہے حالات سے عیاں کہ دولت حق کی نہیں ہے
ورنہ ہتھیلی پر تیرے بھی چھالے ہوتے
عشق و وفا کے تُو نے ہیں فقط الزام لگائے
سر مِرے کچھ جرمِ جفا بھی تو ڈالے ہوتے

0
9