ہم عید منانے نکلے ہیں |
پر روزے اپنے بکھرے ہیں |
کئی نفل نمازیں پڑھ ڈالیں |
پر فرض سے ہم بے فکرے ہیں |
جو زکوٰۃ میں راشن بانٹا تب |
سب تصویروں میں نکھرے ہیں |
اکثر جو ہم تم کرتے ہیں |
انسان نہیں ہم شِکرے ہیں |
یہ باتیں میری سن کر سب |
وہ کہنے لگے ارے او بے ادب |
یہ کیسی باتیں کرتا ہے |
کچھ دیکھ تو اپنا نام نسب |
میں بولا سچ ہی کہتا ہوں |
رے میرا گواہ ہے میرا رب |
سچ بولو تم سچائی پر |
آخر ایمان ہو لائے کب |
بتلاؤ ناں کب جاگے ہو |
رب کی جانب کب بھاگے ہو |
تھی تھامنی مل کر اِک رسی |
لیکن تم ٹوٹے دھاگے ہو |
بڑھنا تھا آگے تقویٰ میں |
تم لوٹ کھسوٹ میں آگے ہو |
اپنے اندر اب جھانک زرا |
کیا مومن خود کو لاگے ہو |
تم میں کوئی آزاد بھی ہے |
کیا سچ میں کوئی شاد بھی ہے |
نہ یہ سوچ کہ آج بچا ہے تُو |
زد میں تیری اولاد بھی ہے |
مسمار فلسطیں ہوتا ہے |
تم پر لازم تو جہاد بھی ہے |
فتحِ خیبر، فتحِ مکہ |
یہ سچائی کیا یاد بھی ہے |
معلومات