تجھ کو پانے کی جستجو کر کے
خود کو کھویا، یہ آرزو کر کے
جانے کب؟ پر یاد ہے اتنا
کچھ تو ہوتا تھا رنگ و بُو کر کے
آ، صیاد تِرا دکھلاؤں
آئینہ تیرے رُو برو کر کے
تم سے نہ ہو سکے گا کبھی بھی
کر گیا میں جو ایک ہُو کر کے
یاں کوئی نہیں سنتا میری
دیکھا ہے سب سے گفتگو کر کے
ہے لائق کوئی بھی ممبر کے؟
سب کھڑے کب سے ہیں وضو کر کے
پاسباں تجھ کو کیسے مانیں؟
غیر کو یار، ہمیں عدو کر کے

49