لگا کے دام مِرے کر ابھی ادا مجھ کو
یا دے مقام مِرا اوڑھ دے رِدا مجھ کو
جسے تو عشق کہے وہ تِری ضرورت ہے
فلک کے پار سے یہ آ رہی صدا مجھ کو
کبھی میں تخت نشیں تھا ابھی یہ صورت ہے
بنا گئی ہے تمنا تِری گدا مجھ کو
وہ جس کے نام سے دل میں مِرے کدورت ہے
وہ کر گیا تھا کبھی مجھ سے ہی جدا مجھ کو
ہے توڑ ڈالا یہ کہہ کر کہ ایک مُورت ہے
وہ بت کہ جس نے کیا تھا کبھی فدا مجھ کو

14