میں کہ خود گزیدہ ہوں مجھ سے کام مت رکھیو
محفلوں میں میرا اب اہتمام مت رکھیو
زہر کو سمجھ کر قند کب کا پی چکا ہوں میں
میرے آگے اب کوئی مے کا جام مت رکھیو
موت سے نہ ڈرتا تھا وہ جو مر چکا ہے اب
کہہ گیا تھا جیون کو میرے نام مت رکھیو
ڈوبتا سفینہ میں، میں قصہءِ پارینہ
میں تو اب بھی کہتا ہوں مجھ کو تھام مت رکھیو
بس یہی گزارش ہے اِس بے نوا مصدقؔ کی
خاطرِ من اپنی نیندیں حرام مت رکھیو

1
47
واہ۔

0