میں کہ خود گزیدہ ہوں مجھ سے کام مت رکھیو |
محفلوں میں میرا اب اہتمام مت رکھیو |
زہر کو سمجھ کر قند کب کا پی چکا ہوں میں |
میرے آگے اب کوئی مے کا جام مت رکھیو |
موت سے نہ ڈرتا تھا وہ جو مر چکا ہے اب |
کہہ گیا تھا جیون کو میرے نام مت رکھیو |
ڈوبتا سفینہ میں، میں قصہءِ پارینہ |
میں تو اب بھی کہتا ہوں مجھ کو تھام مت رکھیو |
بس یہی گزارش ہے اِس بے نوا مصدقؔ کی |
خاطرِ من اپنی نیندیں حرام مت رکھیو |
معلومات