اگر زندگی موقع دے تو دنیا گھوم لینا مگر اپنی مٹی اور اپنے وطن کو کبھی نہ بھولنا۔آگہی اچھی چیز ہے مگر کسی کا اشتہار کبھی مت لگانا۔جھکنا اور بکنا دونوں انسان کو پست کر دیتے ہیں۔اگر لمبی زندگی جینا چاہتے ہو تو کم کھاؤ اور زیادہ سے زیادہ پیدل چلتے رہو۔حرام کے مال سے بنا محل حلال کی جھونپڑی سے بھی کمتر ہے۔
حقوق نسواں کی اصطلاح بذات خود اس حقیقت کی عکاس ہے کہ استعمال کرنے والا (یا والی) جنسی یا صنفی امتیاز کا (یا کی) علم بردار ہے۔ اب صنفی امتیاز ہے کیا ؟یہ سوال ہم سب کے لیے غور طلب ہے کیونکہ اس اصطلاح کا استعمال کرنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی کو بھی مرد و زن میں تفریق کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔دوسری طرف وہی لوگ حقوق نسواں کا نعرہ بھی لگاتے ہیں۔ اب پہلے تو انہیں یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ وہ صنفی امتیاز کے قائل ہیں یا اس کے خلاف؟ اب یہ بھی بھلا کوئی کرنے والی بات ہے کہ آپ تذکیر و تانیث سے مبرا گفتگو کے پابند ہو جائیں، یعنی بنیادی طور پر زبان کا ہی بیڑا غرق کر دیں۔ دوسری جانب حقوق انسانی کے علمبردار درحقیقت برابری نسواں کے نام پر مرد و زن کی تفریق کو ختم کروانا چاہتے ہیں اور برابری نسواں کے نام پر مرد و زن کی تفریق کو ختم کرنا سمجھیں کہ انسانیت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
اگر سمجھنا ہے کہ معاشرے میں زوال کیونکر آیا تو بس یوں سمجھو کہ جو رہبری کے قابل تھے وہ حیا کرتے رہے اور جو گمراہ تھے وہی بے حیا رہبر بن گئے۔اندھے کو کیا معلوم کہ کسے دِکھتا ہے اور کسے نہیں، اس لیئے اکثر اندھے اندھوں سے ہی رہنمائی طلب کر بیٹھتے ہیں۔بھوک پیسہ کمانا تو سکھا سکتی ہے مگر عزت کمانا نہیں سکھا سکتی۔روشنی اتنی بھی نہیں ہونی چاہیئے کہ کچھ دِکھائی نہ دے اور اندھیرا اتنا بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ کچھ سجھائی نہ دے۔غلامی عقل و فہم کے فقدان سے جنم لیتی ہے۔