جو کبھی صاحبِ افکار نہیں ہو سکتا
وہ کسی قوم کا معمار نہیں ہو سکتا
جو کبھی عشق سے دو چار نہیں ہو سکتا
وہ کبھی صاحبِ دستار نہیں ہو سکتا
گو کہ وہ اتنا بھی غدّار نہیں ہو سکتا
ہاں مگر چور وفادار نہیں ہو سکتا
تُو تحفظ کی بھلے جتنی بھی قسمیں کھا لے
ملک کے لٹنے سے انکار نہیں ہو سکتا
ہم کو اتنی تو سمجھ ہے کہ اعانت کے بِنا
سگ کبھی صاحبِ سرکار نہیں ہو سکتا
یہ جو کرتا ہے لٹیروں کو مسلط ہم پر
کچھ بھی ہو سکتا ہے سالار نہیں ہو سکتا
وہ جو جا بیٹھا ہے باہر وہی محرومِ حیا
بھانڈ ہو سکتا ہے بیمار نہیں ہو سکتا
گرچہ بازار میں ہر شاہ و گدا بِکتا ہے
مجھ سے مجنوں کا خریدار نہیں ہو سکتا
ہے مرے فن کا ہی انداز عجب سا یارو!
اس کا اب کوئی پرستار نہیں ہو سکتا
جو غلامی کی روش چھوڑ نہیں سکتا ہو
وہ غلاموں کا بھی سردار نہیں ہو سکتا
ہو جہاں عدل کی انصاف کی باتیں ہوتیں
وہ مرے ملک کا دربار نہیں ہو سکتا
کوئی معشوق تری جان کے درپے ہو اگر
وہ تِرا دِل تِرا دِلدار نہیں ہو سکتا
جو کہ راہوں سے بھی ہو چنتا رہا ہر پتھر
سنگسار اس سے یہ سنسار نہیں ہو سکتا
جس کی آرائش و زیبائی مِرے ہاتھوں ہے
مجھ سے وہ کہتا ہے دیدار نہیں ہو سکتا
میں تِرے بعد تِری یاد تجھے لوٹا دوں
عشق کا ایسے تو بیوپار نہیں ہو سکتا
جس کو دولت کی ہوس جاگتا رکھے ہر پل
وہ کبھی صاحبِ کِردار نہیں ہو سکتا
جو لُٹا بیٹھے نہ اپنوں پہ سبھی کچھ اپنا
دل یہ کہتا ہے وہ فنکار نہیں ہو سکتا
تجھ سے منہ موڑ کے چلتا میں بنوں دھرتی ماں!
اب میں اتنا بھی گنہگار نہیں ہو سکتا
اپنے اجداد کے ورثے سے جدا کر دے ہمیں
ایسی تہذیب کا پرچار نہیں ہو سکتا
حق کو حق کہنے سے ہو کر یوں گریزاں یارو!
کبھی جنت کا میں حقدار نہیں ہو سکتا
یاد رکھنا یہی اچھے سے کہ پختون کبھی
تابع و نائبِ اغیار نہیں ہو سکتا
(مصدق اخوندزادہ)
July 03, 2022.

148