دوام دکھ ہے تمام دکھ ہے
یہ لُولا لنگڑا نظام دکھ ہے
سجودِ ناحق ہیں عام، دکھ ہے
خودی بھی اب تک ہے خام، دکھ ہے
جو کھا رہا ہے حرام، دکھ ہے
ڈلی نہ اُس کو لگام، دکھ ہے
جو اُس نے بھیجے سلام، دکھ ہے
لگائے اُس کے بھی دام، دکھ ہے
یاں بن چکے سب غلام، دکھ ہے
بھرا ہے خوں سے یہ جام، دکھ ہے
نہیں ڈھلے گی یہ شام، دکھ ہے
ہے تیرگی ناتمام، دکھ ہے
ہمارے جیون کا نام دکھ ہے
کہ برسرِ در و بام دکھ ہے

22