دکھائی دیتی ہے منزل مگر منزل نہیں ہے یہ
جنون و عشق کے ہرگز ہی اب قابل نہیں ہے یہ
نہیں ہوتا ہے کچھ بھی یاں محل تعمیر کرنے سے
قسم کھا کر کہو جو عشق کی قاتل نہیں ہے یہ
یہ فانی ہے لا یعنی ہے ادھُوری سی کہانی ہے
وفاؤں سے تری ہونی کبھی حاصل نہیں ہے یہ
مجھے بس آخرت کی ہی تمنا باز رکھتی ہے
دعاؤں میں مری تو آج بھی شامل نہیں ہے یہ
یہ دل میرا تو دیکھو کیسا اس دنیا پہ آیا ہے
مجھے ہر پل یہ کہتا ہے ارے باطل نہیں ہے یہ
وصالِ یار کی خاطر اتارا رب نے آدم کو
تبھی آدم حوا کے بیچ میں حائل نہیں ہے یہ
کوئی بتلائے یہ جا کر مصدق جیسے شاعر کو
یہ جو دنیا ہے اب تیری طرف مائل نہیں ہے یہ

21